قومی ترقی کا راز ایک مسکراہٹ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سنگاپور کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے، یہ ملک رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کراچی کے ایک چوتھائی کے برابر ہے لیکن اس ملک کی پیدا وار پاکستان کے مقابلے کئی گنا زیادہ اور فی کس آمدنی تقریباً 65 ہزار 233 ڈالرہے۔

دنیا کی بہترین ایئر لائن، بہترین بینک ، ہوٹلز اور ایئرپورٹ سنگاپور میں موجود ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ دنیا کی بہترین ریٹنگ ایجنسیاں سنگارپورکی ایئر لائن کو بہترین ایئر لائن اور سنگاپور کے ایئر پورٹ کو بہترین قرار دے چکے ہیں۔

اس ملک کی ترقی کی رفتار حیران کن ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حیران کن ترقی کے پیچھے ایسا کونسا راز ہے جس کو پاکر سنگاپور ترقی کے اس مقام پر پہنچ گیا ہے۔

سنگاپور کی کمپنیوں کے عملے کا شائستہ رویہ اتنا خوشگوار ہوتا ہے کہ ہر کسٹمر ان کے گن گانے لگ جاتا ہے۔عملے کے ہر فرد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے وہ اپنے گاہک کو بہترین سروس مہیا کرے اور شائستگی کے ساتھ پیش آئے۔

حال ہی میں میرے ایک دوست کورونا سے قبل سنگاپور کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے، انہوں نے اپنا سوٹ استری کرنے کیلئے دیا ، استری کے دوران وہ سوٹ تھوڑا سے جل گیا تو اس ہوٹل کا منیجر بمعہ عملہ اس کے کمرے میں آیا، تمام صورتحال بتائی اور اس واقعہ پر معذرت کرتا رہا۔ اس ہوٹل کے منیجر نے میرے دوست کو پیشکش کی کہ ہوٹل کی گاڑی اور ڈرائیور نیچے تیار کھڑے ہیں ، آپ سنگاپور کے کسی بھی بہترین برانڈ کا سوٹ آ پ لے سکتے ہیں جو ہوٹل کی طرف سےہوگا۔ اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو آپ بتادیں ہم آپ کی مرضی کا سوٹ لیکر آپ کے کمرے میں پہنچادینگے اور میرے دوست کے کہے مطابق ہوٹل نے ان کو سوٹ مہیا کردیا۔

اس دوران ہوٹل کے عملے کا رویہ اتنا متاثر کن تھا کہ میرے دوست کا کہنا ہے کہ اب میں جب بھی سنگاپور جاؤنگا اسی ہوٹل میں قیام کرونگا۔ یعنی اگر غلطی ہوبھی گئی تو اس کوکیسے سنبھالاگیاکیونکہ غلطی ہونا ایک عام سی بات ہے لیکن اس کو سنبھالنا اور معاملے کو درست انداز میں نمٹانا اصل کام ہوتاہے۔

اس طرح کی بیشمار مثالیں سنگاپور اور دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہیں۔کہا یہ جاتا ہے کہ عملے کا گاہک کے ساتھ رویہ اس کمپنی اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔دنیا کے اچھے ملازمین ہوں اور اچھی صلاحیت بھی ہو لیکن اگر آپ کسٹمر کو عزت نہیں دینگے تو تب تک آپ ترقی کی منازل نہیں طے کرسکتے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو سرکاری ادارہ ہویا نجی کمپنی یہاں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کسٹمر کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جاتا ہے جیسے صارف پر احسان کیا جارہا ہے، ایئرلائن ہو، ریلوے ہویاکوئی بھی ادارہ آپ اکثر ایسے مناظر دیکھ سکتے ہیں جہاں کسٹمرز کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھا جاتا ہے۔

حال ہی میں ہونیوالے ایک واقعہ پاکستان میں سروس کے ناقص معیار کی عکاسی کرتا ہے۔میرے ایک دوست کے بچے کی وفات کے بعد میت کو بذریعہ جہاز اسلام آباد روانہ کرنا تھا۔

جب میت کو لیکر ایئر پورٹ پہنچایا گیا تو نجی فضائی کمپنی کے عملے کا رویہ انتہائی بے حس اور غیر شائستہ تھا کہ لواحقین اپنے بچے کا غم بھول کر میت کو جہاز میں کس طرح چڑھایا جائے اس فکر لگ گئے، کبھی میت کو ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل اور بالآخر میت لیکر جب کارگو ٹرمینل پہنچے تو پتا چلا کہ ایئر وے بل ایئر پورٹ کے پاس بنتا ہے اور جب تک اس بل کی ایک کاپی کارگو ٹرمینل پر نہیں آئیگی تب تک میت کو جہاز میں نہیں رکھا جاسکتا۔

اس تگ و دو میں میرے دوست نے واپس جاکر بل بنوایا اور کاپی لیکر کارگوٹرمینل پہنچا اور جوں تو ںکرکے میت کو جہاز میں رکھا گیا اور جیسے ہی وہ دوست چیک ان کرنے کیلئے گیا تو پتا چلا کہ اس فیملی کی چار میں سے 3 سیٹیں کسی وی آئی پی کو دیدی گئی ہیں۔

ایک باپ جو اپنے بچے کی میت لیجانے کیلئے دوڑ دھوپ کررہا ہو اور وہ ماں جس نے اپنا لخت جگر کھودیا ہو جب اس کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جائے تواس خاندان پر کیا گزری ہوگی اس بات کا اندازہ آپ بخوبی لگاسکتے ہیں۔

فضائی کمپنی کی ڈھٹائی کی وجہ سے صرف ایک شخص کو میت کے ساتھ جانے کی اجازت ملی اور باپ میت کے ساتھ چلا گیا اور ماں اپنی دوبیٹیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئی اور کسی دوسری فلائٹ سے روانہ ہوئیں۔

لاکھوں روپے کے ٹکٹ لینے کے باوجود اس تمام صورتحال سے یہ بات واضح ہے کہ ہمارا ہر شعبہ اور عملے کا رویہ لوگوں کے ساتھ بے حس ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ کبھی جو اخلاق اور رویہ ہمارا خاصہ ہوا کرتا تھا جو ہماری ثقافت اور مذہبی تعلیمات کا حصہ ہیں لیکن ہم نے کبھی ان پر عمل نہیں کیا۔

ہم نے اچھے اخلاق، شائستگی اور ایثار کی ترغیب دینے والی اسلامی تعلیمات کو ترک کردیا ہے لیکن یہ بات یادرکھیں کہ جب تک ہم کاروباری لین دین اور بات چیت کے دوران اچھے اخلاق اور شائستہ رویہ کو نہیں اپنائیں گے تب تک ہم نہ اچھا کاروبار کرسکتے ہیں اورنہ اچھے ملازم بن سکتے ہیں۔

یہ نہ صرف کاروبار کیلئے بلکہ ایک عام آدمی اور ملازم کیلئے ضروری ہے کہ اپنی تخلیقی اور تکنیکی صلاحیتوں کے ساتھ رویہ بھی بہتر بنائے کیونکہ جب تک آپ کا رویہ درست نہیں ہوگا تو کبھی بھی لوگ آپ کو پسند نہیں کرینگے۔

میری تمام نجی اداروں سے گزارش ہے کہ اپنے ملازمین کو سروس ایکسی لینس کی تربیت دیں اور اپنے ملازمین کو لازمی طور پر اس کا پابندکیا جائے اور عملے کا رویہ شائستہ اور بااخلاق ہو تو میں دعوئے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کے ملازمین دیگر خوبیوں کے ساتھ اچھے اخلاق اور شائستہ رویہ اپنائیں تو آپ کا ادارہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کریگا۔

حکومت سے بھی استدعا ہے کہ عوام سے روابط رکھنے والے اداروں میں رویہ بہتر بنانے کیلئے تربیت دی جائے اور عملے کو کسٹمرز کے ساتھ ڈیل کرنے کا طریقہ بتایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ سرکاری اداروں کی ساکھ بہتر نہ ہوسکے۔میں آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ سنگاپور کی ترقی کا راز ان کی ایک مسکراہٹ ہے ، وہ جب کسی کسٹمریا کسی سے بھی ملتے ہیں تو مسکراکر ملتے ہیں اور یہی انکی ترقی کی اصل وجہ ہے۔

Related Posts