پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم میں قربتیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ایم کیو ایم کو تحریک انصاف سے اتحاد ختم کرکے وفاقی حکومت گرانے پر سندھ میں وزارتیں دینے کی پیشکش کردی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری  کا کہنا ہے کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ کراچی میں ترقی ہو تاہم ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق وسائل نہیں دیے جاتے ہیں اس لئے ہمیں وفاق سے اپنا حصہ چھیننا پڑے گا۔

انہوں نے ایم کیوایم کو پیغام دیتے ہوئے کہاکہ پرانے ساتھیوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ جو ظلم کراچی کے ساتھ ہورہا ہے اسے روکا جاسکتا ہے اوراس مقصد کیلئے وفاقی حکومت سے اتحاد کو ختم کریں اور عمران کی حکومت کو گرادیں۔ بلاول بھٹو کی پیشکش نے ملکی سیاست میں ایک ہلچل سی مچادی ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی پیشکش کے جواب میں ایم کیوایم کے رہنماء ومیئر کراچی وسیم اختر نے شہرکے مسائل کے حل کے لیے ہم کسی کے ساتھ بھی بیٹھ سکتے ہیں۔

وسیم اختر کاکہنا ہے کہ تحریک انصاف سے اتحاد بھی شہرکے مسائل کے حل کیلئے کیا تھا لیکن پی ٹی آئی نے کراچی کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا جبکہ دوسری جانب ایم کیوایم کاکہنا ہے کہ کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ،کےڈی اے، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور بلڈنگ کنٹرول لوکل گورنمنٹ کےماتحت کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وفا قی حکومت میں شمولیت ذاتی مفادات کیلئے نہیں بلکہ شہر کی بہتری کیلئے کی ہے تاہم وفاقی حکومت سے علیحدگی کے حوالے سے مبہم سے موقف سامنےآیاہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان مفاہمت اور مخاصمت کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ 1988ء میں پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو وفاق اور سندھ حکومتوں میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔

یوں سندھ میں اپنی نوعیت کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تاہم ایم کیو ایم کو شکایت تھی کہ اس کے وزراء کے بیشتر اختیارات سلب ہیں اور انھیں اپنے محکموں میں احتساب کا حق حاصل نہیں ہے

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعدمفاہمتی عمل کو اپنی پالیسی کی بنیاد قرار دیااور ایم کیو ایم کے مرکزنائن زیروجاکرسابقہ ادوار میں کی گئی زیادتیوں پر معذرت کی۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد ایم کیو ایم وفاق اور سندھ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ حکومتوں میں شامل ہوئی۔

نئے بلدیاتی نظام کے قانون کے مسودہ میں تاخیر پربلدیاتی ادارے بیوروکریسی کے سپردکئے جانے پر ایم کیوایم نے احتجاجاً سندھ حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی۔

پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں ایم کیوایم کیخلاف الیکشن میں حصہ لیا اور بڑی کامیابی سمیٹی لیکن شومئ قسمت کہ پی ٹی آئی کو وفاق میں حکومت قائم کرنے کیلئے ایم کیوایم کا سہارا لینا پڑا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایم کیوایم حکومت کے بغیر رہ نہیں سکتی اس لئے 2017ء کے انتخابات کے بعد ایم کیوایم نے پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی پیشکش پر ایم کیوایم اگر وفاقی حکومت کو گرانے کا سبب بنتی ہے تو یہ پہلا واقعہ نہیں ہوگا ۔1990ء کے عشرے میں متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلزپارٹی سے تحریری اتحاد توڑ کر آئی جے آئی کا ساتھ دیا تھا جومحترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت ہٹانے کا سبب بنا۔

پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے درمیان کراچی میں وسائل کی فراہمی اور میئر وسیم اختر کو اختیارات دینے کا معاملہ ہنوز وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے کراچی میں صفائی سمیت دیگر مسائل حل طلب ہیں تاہم اگر پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے قائدین سیاسی بصیرت کا ثبوت دیں اور توجہ طلب اہم معاملات پر حقیقی اتفاقِ رائے قائم کر لیں تو سندھ میں ترقی کا ایک دور نیاشروع ہو سکتا ہے۔

Related Posts