کراچی میں نئے ضلع کے قیام کے بعد سیاسی گہما گہمی میں اضافہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

29 اگست کو بلدیاتی حکومت اپنا اقتدار مکمل کرنے کے ساتھ ہی سندھ میں نئی گہما گہمی شروع ہوگئی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے پہلے ہی اقتدار کو مستحکم کرنا شروع کردیا ہے جبکہ اصل جنگ کراچی میں ہورہی ہے۔اچانک اقدام میں حکومت سندھ نے ضلعی غربی سے ضلع کیماڑی کو الگ کرتے ہوئے انتظامی بنیادوں پر اضلاع کی تقسیم کا فیصلہ کیا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے فوری رد عمل سامنے آیا جس نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ پارٹی میئر وسیم اختر کو لے کر آئی جس کا دور اقتدار اختیارات کی کمی کی شکایات سے بھرا ہوا تھا چونکہ شہر میں ایم کیوایم کا کنٹرول کمزور ہوا امکانات ہیں کہ اگلا میئر تحریک انصاف کی طرف سے ہوسکتا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان شہر پر دوبارہ کنٹرول اور الیکشن میں واپسی کی خواہاں ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اگلا میئر ان کی پارٹی کا ہوگا۔ پی ٹی آئی جو سندھ حکومت کے ساتھ اپنی ہی کشمکش میں رہی اس سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی سیاسی قوت ظاہر کرے گی اور شہر کا کنٹرول سنبھال لے گی۔

حکومت سندھ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے میئر کو تمام حقوق دیئے ہیں لیکن اس شہر کو اب بھی پریشانیوں کا سامنا ہے جبکہ سندھ میں تینوں اہم پارٹیوں میں سے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے کراچی کی تقسیم کو ’نسلی تقسیم‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی پہلے ہی سندھ کو تقسیم کر چکی ہے اور اب ایم کیوایم الگ صوبے کے لئے اپنے دیرینہ مقصد کو بحال کرتی نظر آرہی ہے۔

ایک اور متنازعہ بات یہ تھی کہ حکومت سندھ انتظامیہ کی تقرری کرتی ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں نے اپنا دورانیہ مکمل کیا۔ بلدیات کے وزیر ناصر شاہ مقامی کونسلوں میں ان کی تقرری کریں گے۔سندھ میں کورونا کی وجہ سے بلدیاتی الیکشن کب ہوگا اس سے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتااور تب تک سندھ حکومت کو صوبے بھر کے تمام اضلاع پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگا۔

ایم کیو ایم میئر کے اختیارات کے ساتھ بااختیار بلدیاتی نظام کی خواہاں ہے جبکہ تحریک انصاف اسے نچلی سطح تک منتقل کرنا چاہتی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ سندھ میں بلدیاتی حکومت نے اس کی مدت پوری کی چونکہ تمام جماعتیں اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش میں ہیں ہم آنے والے مہینوں میں سیاسی گہما گہمی کی توقع کرسکتے ہیں۔

Related Posts