2020 پاکستان میں تبدیلیوں کا سال: عمران خان کیلئے مدت پوری کرنا بڑا چیلنج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کی تاریخ میں کوئی جمہوری وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا، اتحادیوں کی کمزور بیساکھیوں پر کھڑی تحریک انصاف کی حکومت کیلئے اتحادیوں کے مطالبات پورے کرنا بڑا مسئلہ بننے کے ساتھ پی ٹی آئی میں بھی اندرون خانہ حکومت کیخلاف پریشر گروپس نے حکومت کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔

ایم کیوایم نے روایتی ہتھکنڈے اپناتے ہوئے حکومت پر دبائو ڈالنے کیلئے وفاقی کابینہ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے تاہم حکومت کی حمایت جاری ہے ، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایم کیوایم کے ایک وزیرخالد مقبول مستعفی ہوچکے ہیں جبکہ فروغ نسیم وزیرقان کے منصب پر موجود ہیں۔پی ٹی آئی کے دواعلیٰ سطح کے وفود کی ایم کیوایم سے ملاقات کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ اپنے بند دفاتر کھولنے، اربوں روپے کے فنڈز کے اجراء اور خاص طور پر پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت کیلئے مصر ہے جس پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

قومی اسمبلی کے 342کے ایوان میں حکومت سازی کیلئے درکار 172میں سے پاکستان تحریک انصاف کے پاس 157نشستیں ہیں جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی7، پاکستان مسلم لیگ (ق) کی5،بلوچستان عوامی پارٹی کی5، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی 3،عوامی مسلم لیگ کی 1،بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی4، جمہوری وطن پارٹی کی ایک نشست اور ایک آزاد رکن کی بدولت حکومت کے پاس مجموعی طور پر184نشستیں ہیں۔

اپوزیشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 54،متحدہ مجلس عمل کی 16،تین آزاد جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کی ایک نشست ہےجوکہ مجموعہ طور پر158نشستیں بنتی ہیں، حکومت بنانے کیلئے اپوزیشن کو 14 نشستیں درکار ہیں جبکہ ایم کیوایم کی اور مسلم لیگ ق اگر پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو اپوزیشن حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔

پنجاب اوروفاق میں دوسری بڑی اتحادی جماعت ق لیگ بھی عوامی مسائل حل نہ ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا عندیہ دے چکی ہے تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں حکومتی نظم ونسق ق لیگ کے حوالے کردیا گیا ہے اور عثمان بزدار محض دکھاوئے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے تاہم پنجاب میں سیاسی ہلچل کی وجہ مسلم لیگ ن اور ق کے رابطوں کو بھی قرار دیا جارہاہے۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس 181نشستیں ہیں جبکہ ق لیگ کی دس سیٹیں بھی حکومت کا حصہ ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس 166، پیپلزپارٹی کی 7 اور سپاہ صحابہ کی ایک سیٹ ہے جوکہ 174نشستیں بنتی ہیں تاہم اگر ق لیگ حکومت کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو اپوزیشن جماعتیں ملکر پنجاب میں بھی باآسانی حکومت بناسکتی ہیں۔

پنجاب میں عثمان بزدار کی کارکردگی سے خود تحریک انصاف کے اہم رہنماء بھی مطمئن نہیں ہیں تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عثمان بزدار اپنی لاکھ نااہلی کے باوجود سیاسی دائو پیچ سیکھ گئے ہیں اس لیئے انہوں نے چیف سیکریٹری کو ہٹانے کیلئے اپنی ہی حکومت کیخلاف پریشر گروپ بنوادیا ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد بھی حکومت سے نالاں ہیں جبکہ بلوچستان میں بھی تبدیلی کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں ۔ملک میں تبدیلی کی ہوائوں کا رخ دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھی وطن واپسی کا قصد کرتے ہوئے فروری میں پاکستان واپسی کا عندیہ دیدیا ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو پارلیمنٹ میں ان ہائوس تبدیلی کا اشارہ دیتے رہے ہیں تاہم اس وقت مسلم لیگ ن کی پوری توجہ پنجاب میں حکومت بنانے پر مرکوز ہے ۔ باخبر ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ ن لیگ پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے ق لیگ کو وزارت اعلیٰ بھی دینے کو تیار ہے۔

شہباز شریف پنجاب میں حکومت کی باگ ڈور ق لیگ کے ہاتھ میں دینے کے عوض قومی اسمبلی میں قائد ایوان کی نشست پر بیٹھنے کیلئے ق لیگ سے تعاون کے متمنی ہونگے جبکہ ایم کیوایم ہمیشہ بھاری پلڑے میں اپنا وزن ڈالتی ہے تو موجودہ صورتحال میں اس وقت تبدیلی کی تند وتیز ہوائوں میں وزیراعظم عمران خان اپنی آئینی مدت پوری کرپائینگے یا نہیں بہت جلد پتا چل جائیگا۔

Related Posts