فلسطین: مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Ceasefire in Lebanon: Why Not in Gaza?

اگرچہ فلسطین کے حامی ووٹرز کی اکثریت نے ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت میں بنیادی کردار ادا کیا اور کملاہیرس کو اسرائیل کی اندھی حمایت کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا لیکن ٹرمپ بھی اہل فلسطین کے لیے کوئی نیک شگوں نہیں ہے بلکہ اس کی حلف برداری سے پہلے ہی اہل غزہ پر بھوک مسلط کرکے انہیں جھکانے کی پالیسی پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔

ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن پارٹی کی ترجمان ایلزبتھ پیپکو نے گزشتہ دنوں اسرائیلی چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ایک فیصلہ کن فتح کے ساتھ اسرائیل غزہ جنگ کو ختم کر دے۔

اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فلسطین کے حوالے سے ٹرمپ کی پالیسی کے خدوخال کیا ہوں گے اور اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا۔ ساتھ ٹرمپ کی جانب سے نئی تقرریوں بھی اس کے بھیانک اداروں کی غمازی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ٹرمپ نے وزرات دفاع کا قلمدان ایک ایسے شخص کو سونپنے کا اعلان کیا ہے، جو گوانتابوبے کا جلاد رہا ہے۔ بدنام زمانہ جیلر پیٹ ہیگسیتھ (Pete Hegseth) کے دور میں گوانتاموبے کی قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں۔

پیٹ اس وقت گوانتاموبے کے عقوبت کدے میں پلاٹون کمانڈر تھا۔ اس کے ہاتھوں تشدد سے کئی قیدی دماغی توازن کھو بیٹھے۔ مگر اس جلاد نے ڈھٹائی کے ساتھ تشدد کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ وحشی اسی سلوک کے مستحق ہیں، دنیا میں کہیں بھی دہشت گردوں کو پیا رنہیں کیا جاتا۔

موصوف افغانستان میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے صہیونی ریاست کے لیے جس شخص کو نیا سفیر مقرر کیا ہے، وہ تو فلسطینیوں کے وجود کا ہی منکر ہے۔ ریاست آرکنسا (Arkansas) کے سابق گورنر مائیک ہکابی کو اسرائیل میں امریکا کا سفیر نامزد کردیا گیا ہے۔

انہتر سالہ ہکابی کا موقف ہے کہ “مشرق وسطیٰ میں عرب ہیں یا اسرائیلی، فلسطینی کوئی قوم نہیں۔ دنیا میں زمین کی کمی نہیں، اسرائیل سے باہر کسی قطعہ ارض پر فلسطینی ریاست قائم کردی جائے۔

اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے یہودیوں کا وطن ہے۔ نہر سے بحر تک خدا نے یہ علاقہ یہودیوں کو دیا ہے۔ یہ شخص فلسطینیوں سے اپنی بے انتہا نفرت کی وجہ سے مشہور ہے۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہکابی اسرائیل اور اسرائیلی عوام کو پسند کرتا ہے اور اسرائیلی بھی اس سے پیار کرتے ہیں۔ وہ خطے میں “امن” کی فضا بحال کے لیے اَن تھک کوشش کرے گا۔ ہکابی مغربی کنارے میں غیر قانونی صہیونی بستیوں کے قیام کا زبردست حامی ہے۔ 2017ء میں اس نے امریکی چینل سی این این کو انٹرویو میں کہا کہ “میں تسلیم نہیں کرتا کہ مغربی کنارہ نامی کوئی چیز ہے۔

یہاں یہودیہ اور سامریہ ہیں بس، یہودیہ اور سامریہ اس علاقے کے لیے مختص یہودی نام ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس علاقے میں یہودیوں کی آبادکاری غیر قانونی نہیں، بلکہ ان کا آبائی حق ہے۔

امریکی ویب سائٹ ایکسیس کا کہنا ہے کہ مائیک ہکابی اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا قریبی دوست ہے۔ 2015ء میں ہکابی نے کہا تھا کہ قابض حکام کا مغربی کنارے سے زیادہ مضبوط تاریخی تعلق ہے جتنا کہ امریکہ کا مین ہٹن سے ہے۔

2019 میں اس نے کہا تھا کہ قابض ریاست کو مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو ضم کرنے کا حق حاصل ہے۔ 2008ء کی صدارتی مہم کے دوران ہکابی نے کہا تھا کہ واقعی فلسطینی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس نے دلیل دی کہ جس زمین پر مستقبل میں فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی، وہ دوسرے عرب ممالک سے لی جانی چاہیے۔

ہکابی کو یہودی آبادکاروں کی حمایت میں سب سے زیادہ پرجوش حامی اور مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے خواہش مند یہودی گروہوں کی حمایت میں سب سے زیادہ متحرک امریکی سیاست دان قرار جاتا ہے۔ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل گویا اس کا دوسرا گھر ہے، اکثر و بیشتر وہ اسرائیل کے دورے کرتا رہتا ہے۔

وہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کے قیام کی کئی تقاریب میں مہمان خصوصی بھی رہا ہے۔ وہ دو ریاستی حل کی پالیسی کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا کر اسے پاگل پن قرار دیتا ہے۔ گوکہ وہ مسیحی فرقے ایون جیلیکل سے تعلق رکھتا ہے، مگر یہ نام نہاد مسیحی فرقہ مسیحیوں میں سب سے زیادہ صہیونیت نواز ہے، امریکا میں اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ فنڈنگ کرنے والے بھی یہی لوگ ہیں۔

ان لوگوں کے ہیکل کے حامی صہیونی گروہوں سے بہت قریبی مراسم ہیں اور وہ سرعام مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی کوششیں بھی مسلسل جاری ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کینسٹ) میں لیکوڈ پارٹی کے رکن اور یہودی مذہبی پیشوا گلیک ہیکل گروپوں میں سب سے سرکردہ اور پرجوش رہنما سمجھا جاتا ہے۔

نیا امریکی سفیر مائیک ہکابی گلیک کا بھی قریبی دوست ہے۔ دوستوں کی ساتھ تصاویر بھی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ دوسری جانب نتن یاہو نے بھی واشنگٹن کے لیے جس شخص کو نیا سفیر نامزد کیا ہے، وہ بھی ہکابی کی کاپی ہے۔ اسی ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم نے آباد کار اور آبادکاری کی سرگرمیوں میں سرگران یشیئل لیٹر (Yechiel Leiter) کو امریکہ میں اسرائیل کا نیا سفیر مقرر کیا ہے۔

لیٹر سفیر مائیک ہرزوگ کی جگہ لے گا، جسے نیتن یاہو کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ اس سے قبل اس کے چیف آف اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دے چکا ہے، جب نیتن یاہو برسوں پہلے وزیر خزانہ تھا۔

لیٹر ریاستہائے متحدہ میں پیدا ہوا اور تقریباً چار دہائیاں قبل 18 برس کی عمر میں وہ مقبوضہ علاقوں میں آباد ہونے کے لیے فلسطین منتقل ہوگیا تھا۔ لیٹر الخلیل میں اسرائیلی آباد کاری پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کی حمایت کے لیے سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ یہودی بستی ایلی میں رہتا ہے۔

اس کا ایک بیٹا موشے غزہ پر اسرائیلی نسل کشی کی جنگ کے دوران ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کا دوسرا بیٹا شالداگ یونٹ میں ریزرو افسر تھا اور تقریباً ایک سال قبل شمالی غزہ میں لڑائی میں مارا گیا تھا۔ لیٹر فلسفے میں پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہے اور وہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع کا پرزور حامی ہے۔ قابض اسرائیلی حکومت نے اسے ایک خاص مقصد کے لیے چنا ہے تاکہ وہ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی توسیع کی وکالت کر سکے۔

لیٹر شیلا پالیسیفورم میں لیکچرر اور سینئر محقق ہے، جو مختلف مقبوضہ علاقوں میں آباد کاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس سے قبل وہ وزارت تعلیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اور اسرائیل پورٹس کمپنی کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکا ہے۔ نتن یاہو نے آبادکار سفیر کی تقرری کے فیصلے کے بعد تبصرہ کیا کہ “یشیئل لیٹر ایک باصلاحیت سفارت کار، ایک فصیح وبلیغ، امریکی ثقافت اور سیاست کی گہری سمجھ رکھتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ وہ ریاست اسرائیل کی بہترین نمائندگی کرے گا۔ ڈاکٹر یشیئل لیٹر کو امریکہ میں اسرائیل کا نیا سفیر نامزد کردیا۔ ڈاکٹر لائٹر امریکی شہریت کے حامل ہیں جو 18 برس کی عمر میں امریکہ سے اسرائیل منتقل ہوئے۔

وہ انگریزی امریکی لہجے میں بولتے ہیں۔ لیٹر ایک سند یافتہ ربی (امام) ہے۔ اس نے جامعہ حیفہ سے سیاسیات اور بین لاقوامی تعلقات میں ماسٹر کے بعد فلسفے میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل۔ پی ایچ ڈی کے دوران اس کی تحقیق کا میدان توریت اور لبرل ازم تھا۔

اس نے توریت اور بابائے لبرل ازم جان لوکس (John Lokes) کے فلسفہ جمہوریت پر مقالہ لکھا۔ وہ کئی جامعات میں تالمود (یہودی شریعت) کے استاد رہنے کے علاوہ فوج میں بھی تالمود پڑھایا کرتا تھا۔ وہ بھی غرب اردن کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے اور علاقے کو ہمیشہ “مغربی کنارہ” کے بجائے اس کے عبرانی نام عبرانی یہودا السامرہ سے پکارتا ہے۔

اپنے اس عزم کے اظہار کیئے اس نے قبضہ کی ہوئی بستی ایلی کو رہائش کے لیے چنا ہے۔ لیکڈ پارٹی میں وہ قبضہ گرد رہنما یا Settlement Activist مشہور ہے۔ امریکا اور اسرائیل دونوں نے انتہا پسندوں کو سفیر بنا کر جو پیغام دیا ہے، وہ مستقبل کی صورت گری کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

Related Posts