ایک ایسے وقت میں جب خطہ نئے اتحادیوں کے باعث تبدیل ہوتا نظر آتا ہے، یہ جاننا بے حد متاثر کن ہے کہ پاکستان، ترکی اور آذر بائیجان اپنے تعلقات کو مستحکم کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کے زیرِ اہتمام دورے سہ فریقی اجلاس میں تینوں مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین ایک نیا سمجھوتہ طے پایا ہے۔
قریبی بین الممالک تعلقات میں ایک اور یکجہتی کا عنصر بھی نمایاں ہوسکتا ہے کہ یہ تینوں ممالک دیرینہ تنازعات کا بھی شکار ہیں، مثال کے طور پر پاکستان کیلئے مسئلۂ کشمیر کی مثال دی جاسکتی ہے جبکہ ترکی کیلئے یونان اور قبرص کے ساتھ شمالی قبرص کا تنازعہ اور آذر بائیجان کیلئے نگورنوکاراباخ تنازعہ اہم ہے جس پر حال ہی میں جنگ ہوچکی ہے۔
تینوں ممالک میں سے ہر ملک نے ان تنازعات میں ہر دوسرے ملک کے مؤقف کی مستقل حمایت کی اور یہی وجہ ہے کہ تعلقات میں بہتری کے کچھ پہلوؤں نے ان تینوں ممالک کے مشترکہ اور انفرادی عوامی بیانات پر پابندی نہیں لگائی۔ تینوں ممالک کے مابین ماحولیاتی تبدیلی، کورونا وائرس، تعلیم اور ثقافت میں تعاون کیلئے وسیع پیمانے پر تعاون کی فضاء پائی جاتی ہے۔
حال ہی میں دستخط کردہ پاک ترکی اسٹرٹیجک اقتصادی فریم ورک کے ساتھ اسلام آباد نے انقرہ سے اپنے دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کر لیا۔ معاشی معاہدے میں مجموعی طور پر 71 نکات شامل ہیں۔ فی الحال دونوں ممالک میں تجارت کا حجم بہرحال کم ہے جو 800 ملین ڈالرز بنتا ہے۔ معاہدے سے تجارتی حجم میں نمایاں اضافے کا امکان ہے جو خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے۔
توقع ہے کہ پاکستان میں ترکی کی طرف سے سرمایہ کاری میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔ حالیہ اقدامات سے پاکستان کو ایک ایسی معیشت سے منسلک ہونے میں مدد ملے گی جو ہمیں عام طور پر ترقی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اسی طرح ایک اور اعلیٰ سطحی اسٹرٹیجک کونسل ہمارے سامنے ہے جو دو دیرینہ اتحادی ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات کی عکاس سمجھی جاسکتی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ تینوں ممالک کے باہمی دفاعی تعلقات میں بھی بہتری پائی جاتی ہے اور یہ قابلِ ذکر ہے کہ ترک وزیرِ خارجہ نے آذربائیجان کے وزیرِ خارجہ کی موجودگی میں یہ بات پاکستان کے سامنے رکھی۔ تاہم، خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اگر مزید نمایاں تعاون برقرار رکھا جاسکے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ نیا اتحاد اپنے باہمی تعلقات کو دو طرفہ اور کثیر الجہتی فورمز پر آگے بڑھانے کیلئے کام کرسکتا ہے۔