جدید دور کی غلامی

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان سمیت دنیا بھرمیں 2دسمبر کو غلامی کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا، دن منانے کا مقصد انسانی اسمگلنگ، بچیوں کی جبری شادی، چائلڈ لیبر اور جنسی استحصال جیسے سنگین جرائم کا خاتمہ اور غریبوں، نسلی گروپوں، اقلیتوں اور تارکین وطن، نادار خواتین کے ساتھ نارواسلوک کے خلاف اظہار ہمدردی کرنا ہے۔

بہت سارے لوگ غلامی کو ایک تاریخی حوالہ کے طور پر مانتے ہیں تاہم سچ تویہ ہے کہ آج بھی دنیا میں غلامی کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اس کی شکل بدل گئی اور غلامی پوری دنیا کے لوگوں کو متاثر کرتی رہی۔

اس وقت دنیا بھر میں تقریباً4 کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کی غلامی میں زندگی بسر کرہے ہیں،ہر ایک ہزار میں سے 5 افراد جدید غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کے بہت سے خطوں میں غربت، مسلح تنازعات اور طرح طرح کے خونریز بحران جدید غلامی کے ماحول کو ہوا دیتے ہی جا رہے ہیں۔

جدید غلامی کسی بھی عمر ، صنف ، یا نسل کے لوگوں کو متاثر کر سکتی ہے اور ان ممالک میں جہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہے اوربدعنوانی پائی جاتی ہے وہاں غلامی کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔

اس جدید غلامی کی کئی شکلیں ہیں جن میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور اور زرعی فارموں اور ماہی گیری کے شعبے میں کام کرنے والے مردوں کے علاوہ وہ خواتین بھی شامل ہیں جن سے جبراً جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔

یہی نہیں جدید غلامی کی انہی صورتوں میں وہ انسان بھی شامل ہیں، جن کے جسمانی اعضاء بیچ دیے جاتے ہیں اور وہ بچے بھی جن سے سڑکوں پر بھیک منگوائی جاتی ہے یا جن کی کم سنی میں زبردستی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔

کروڑوں انسانوں کو جدید غلامی کی مختلف شکلوں کے ساتھ ان کی شخصی آزادیوں اور بنیادی حقوق سے محروم کر دینے اور ان کا مسلسل استحصال کرتے رہنے کا یہ عمل انسانوں کی اسمگلنگ کی وجہ سے بھی پھیلتا ہی جا رہا ہے، جس سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فعال جرائم پیشہ گروہ مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور انہیں ہر سال قریب 150 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔

مشرقی بعید کی کمیونسٹ ریاست شمالی کوریا اور افریقہ میں اریٹریا اور برونڈی ایسے ممالک ہیں، جہاں انسانوں کو جدید غلامی کی زندگی پر مجبور کیے جانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک، چین اور بھارت اور ان کے علاوہ جنوبی ایشیا میں پاکستان بھی ایک ایسا ملک ہے، جہاں جدید غلامی سے متاثرہ انسانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ان پریشان کن حالات نے اقوام متحدہ کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ جدید غلامی کی ان شکلوں کے خاتمے کے لیے باقاعدہ اقدامات کرے۔ اسی لیے اس عالمی ادارے نے تیس جولائی کو انسانوں کی تجارت کے خاتمے کی کوششوں کا عالمی دن قرار دے دیا۔

کل منائے جانے والے اس دن کا مقصد دنیا سے جبری مشقت اور جدید غلامی کے سن 2030ء تک خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔

غلامی صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ نہیں ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی جدید دور کی  غلامی کی اس زنجیر میں کسی نہ کسی طرح  جکڑے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں جبری مشقت، جنسی وجسمانی استحصال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تدارک یقینی بنایا کر آزادانہ ماحول فراہم کیا جائے۔

بقول شاعر مشرق
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

Related Posts