لانگ مارچ: عمران خان نے کیا حاصل کیا، کون سی غلطیاں ہوئیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لانگ مارچ: عمران خان نے کیا حاصل کیا، کون سی غلطیاں ہوئیں؟
لانگ مارچ: عمران خان نے کیا حاصل کیا، کون سی غلطیاں ہوئیں؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عمران خان کا لانگ مارچ یا حقیقی آزادی مارچ اس وقت اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ایک مشکل ، کٹھنائیوں بھرا دن اختتام پزیر ہے۔ توقع ہے کہ یہ احتجاج کل اور آنے والے مزید دن چلے گا۔ اس پر تجزیہ کرنے کے مواقع ملتے رہیں گے۔ سردست لانگ مارچ میں اب تک جو ہوا، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ تحریک انصاف نے کیا ٹھیک کیا، ان سے کیا اور کہاں غلطی ہوئی؟

عمران خان کی حکمت عملی
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان نے دو ہزار سولہ کے اس تجربے سے سبق سیکھا جب پانامہ کیس شروع کرانے کے لئے تحریک انصاف احتجاج کر نے اور اسلام آباد کا شٹر ڈاﺅن کرنے نکلی تھی ، تب عمران خان کو بنی گالہ ہی میں محصور کر دیا گیا، وہ باہر ہی نہیں نکل سکے تھے۔ تب کے پی کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنا احتجاجی کاررواں لے کر بھرپور مظاہرہ کیا اور سپریم کورٹ میں پانامہ کیس چلنا شروع ہوا۔

اس بار عمران خان نے پہلے سے سوچی سمجھی حکمت عملی کے مطابق کے پی کے کئی شہروں میں جلسے کئے ، کارکنوں کو متحرک کیا اور پھر پلان کے مطابق لانگ مارچ سے پانچ دن پہلے ملتان جلسہ کے بعد بنی گالہ جانے کے بجائے پشاور پہنچ گئے۔ یہ اچھی حکمت عملی تھی۔ احتجاج سے پہلے گرفتار ہوجانا یا یوں محصور کیا جانا کہ باہر نکلا ہی نہ جا سکے غلط تھا۔ اس بار والی پلاننگ اچھی اور عمدہ رہی۔

عمران خان نے پشاور رہ کر اپنے کارکن ایکٹو کئے۔ وہ ایک روز پشاور کے بازاروں میں پہنچ گئے۔ مقصد یہ بتانا تھا کہ انہیں جان کا اس قدر بھی خطرہ نہیں کہ باہر ہی نہ نکلا جائے۔ ان کا کارکن اس دوستانہ طرزعمل سے چارج ہوا ۔ مختلف چینلز اور وی لاگرز کو انٹرویوز کے ذریعے انہوں نے اپنا بیانیہ عمدگی سے آگے بڑھایا اور کارکنوں کو موٹی ویٹ کئے رکھا۔

غلط ٹائمنگ، غلط دن
اس حقیقی آزادی لانگ مارچ کی ٹائمنگ ہر لحاظ سے غلط اور ناموزوں ہے۔ اس قدر سخت گرم موسم میں کون احتجاجی تحریک چلاتا ہے؟ پاکستانی تاریخ میںا س کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عمران خان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں اور وہ حکومت پر مسلسل دباﺅڈالنا چاہتے ہیں، ورنہ لانگ مارچ اور جلسے کرنے کا یہ موسم ہرگز نہیں۔

گرم موسم کا انتخاب تو خیر مجبوری تھی، مگر ورکنگ ڈے کا انتخاب تو خان صاحب نے خود کیا۔ پہلے سنا جا رہا تھا کہ انتیس مئی کو لانگ مارچ ہوگا۔انتیس مئی کواتوار ہوگا اور ویک اینڈ یا اتوار کا دن ایسے مارچ کے لئے سب سے موزوں دن تھا۔اس کا فائدہ ہی ملنا تھا۔ سرکاری اور بیشتر نجی اداروں میں اس دن چھٹی ہوتی ہے، دکانیں وغیرہ بھی بند ہوتیں، ایسے میں مزید انصافین کارکن شامل ہوسکتے تھے۔ عمران کے بیشتر فالورز پروفیشنل لوگ ہیں ، خان صاحب کو دیکھنا چاہیے کہ انہیں ویک اینڈسوٹ کرتا ہے۔

ایک ان سائیڈ سٹوری یہ کہتی ہے کہ اہم حلقوں کی جانب سے اشارہ ملا کہ لانگ مارچ کے بغیر ہی معاملہ حل کرا دیتے ہیں۔ اسی لئے ملتان جلسہ میں عمران خان نے لانگ مارچ کی ڈیٹ نہیں دی اور دو دن آگے کر دی۔ اس دوران مبینہ طور پرپی ڈی ایم کے ایک لیڈر کی ملک کی ایک اہم شخصیت سے ملاقات کی افواہ گرم ہوئی۔اس پر خان صاحب جھنجھلائے ، ادھر جب اہم حلقوں کی جانب سے واضح جواب نہ ملا تو خان صاحب نے گرم ہو کر رابطہ منقطع کر دیا اور پھر فوری طور پر پچیس کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔پچیس ہی کو حکومت ، آئی ایم ایف مذاکرات ہو رہے ہیں، شائد دباﺅ ڈالنے کے لئے یہ دن چنا گیا ہو۔

پی ٹی آئی لیڈروں کی کارکردگی
عمران خان نے لگتا ہے مختلف لیڈروں کو مختلف ٹاسک دئیے۔ اگرچہ ان میں سے بعض نے مایوس کن کارکردگی دکھائی جیسے لاہور میں محمودالرشید احتجاج سے پہلے ہی گرفتار ہوگئے۔ ان کی گرفتاری نورا کشتی ہی لگی۔ سینیٹر اعجاز چودھری نے بھی مایوس کیا۔ وہ اپنے بھائی کے گھر پوشیدہ تھے، وہاں چھاپہ میں پکڑے گئے۔ چھپنے کے لئے ایسی جگہ چنی جاتی ہے جہاں پولیس کا خیال نہ جائے۔

لاہور میں حماد اظہر اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے کمال کر دیا۔ حماد اظہرنے اپنا قافلہ بنایا، روٹ کچھ تبدیل کیا اور پھر راوی پل پر رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے وہ لاہور سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ صوبائی حکومت اور پولیس کی سرتوڑ کوشش تھی کہ تحریک انصاف کی ایک گاڑی بھی لاہور سے نہ نکلنے پائے۔ حماد اظہر انہیں پسپا کر کے نکلے اور مریدکے تک پہنچ گئے۔ انہیں دو تین بار گرفتار کرنے کی کوشش ہوئی، وہ پولیس سے ٹکراتے رہے، زخمی بھی ہوئے، مگر ہمت نہ ہاری۔

یہی سب کچھ ڈاکٹر یاسمین راشد نے کیا۔ پچھتر سالہ کینسر سروائیور ڈاکٹر یاسمین راشد شیرنی کی طرح پولیس کے ڈنڈوں، آنسو گیس کی شیلنگ سے لڑتی رہیں۔ وہ بار بار ٹکراتی اور پولیس کی لاٹھیوں سے راستہ نکالتی آگے بڑھتی گئیں، ان کی گاڑی کے تمام شیشے چکنا چور ہوگئے، ڈاکٹر یاسمین مگر ڈٹی رہیں۔

انصافین کارکنوں نے گرم جھلستی دوپہر میں ایوان عدل کے سامنے اور پھر آگے بڑھنے کی کوشش میں یادگار چوک تک مسلسل لڑائی لڑی۔ خوفناک شیلنگ ان پر ہوئی ، بے رحمانہ لاٹھی چارج بھی۔ انصافین کارکنوں نے جرات دکھائی اور بار بار امنڈامنڈ کر آتے رہے ۔اگرچہ ان کی تعداد غیر معمولی نہیں تھی، مگر جو نکلے وہ عزیمت اور جوش میں غیر معمولی ثابت ہوئے۔

لاہور سے دیگر اراکین اسمبلی کی کارکردگی مایوس کن رہی، کرامت کھوکھر ایم این اے ہیں، ان کا پتہ ہی نہیں چلا۔ شفقت محمود کے قافلہ کی خبریں آتی رہیں مگر پھر وہ نجانے کہاں غائب ہوگیا۔میاں اسلم اقبال اور بعض دیگر لیڈروں سے زیادہ استقامت اور جرات دکھانے کی توقع تھی، وہ نہ دکھا پائے۔ عمران خان کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ لاہور میں ان کے کون سے ارکان اسمبلی جینوئن مزاحمتی اور کون سے ”رانگ نمبر “ہیں۔

پنجاب کے دیگر شہر
سب سے زیادہ مزاحمت لاہور میں دیکھنے کو ملی، میڈیا نے بھی زیادہ کوریج ادھر ہی کی۔ دوپہر کے بعد پنڈی میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے اور بار بار پولیس سے ٹکراﺅ چلتا رہا۔ نجانے کیوں میڈیا نے اسلام آباد اور پنڈی کو کوریج نہیں دی۔ اس لئے اس ٹکراﺅ کی تفصیل عام ناظرین تک نہ پہنچ پائی۔

پنجاب کے باقی شہروں میں ملا جلا معاملہ رہا، بہت سے شہروںمیں خاطر خواہ ریسپانس نہ ملا۔ ایسا کہیں نہیں کہ لوگوں کا جم غفیر نکلا ہوا ور پولیس کی رکاوٹیں توڑنے میں کامیاب ہوجائے۔ فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے ایم این اے فیض اللہ کاموکا کا قافلہ نسبتاً بڑا تھا۔ میانوالی سے کارکن رکاوٹیں توڑنے میں کامیاب رہے۔ فوادچودھری نے بھی اپنا کاررواں نکالا ، اگرچہ تعدادمیں وہ زیادہ نہیں تھا، مگر فواد چودھری سوشل میڈیا پر اس کی اچھی کوریج کرانے میں کامیاب رہے۔ ڈی جی خان سے زرتاج گل نے رات ہی اپنا قافلہ لیا اور وہ سب سے پہلے اسلام آباد پہنچ گئیں۔

جنوبی پنجاب
جنوبی پنجاب میں مجموعی طور پر معاملہ نہایت مایوس کن رہا۔ سب سے بڑے شہر ملتان میں احتجاج بالکل ہی ٹھس ہوگیا، حالانکہ یہاں شہر کے تینوں ایم این اےز تحریک انصاف کے ہیں، شاہ محمود قریشی، ان کا بیٹا زین قریشی اور عامر ڈوگر۔ تینوں قومی اسمبلی کے ارکان اور بیشتر ارکان صوبائی اسمبلی کارکنوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر پہلے ہی اسلام آباد پہنچ گئے، انفرادی طور پر۔

شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں ہیں، وہ بائیس مئی کو ہونے والے کور کمیٹی کے اجلاس کے لئے پشاور گئے تھے،اس کے بعد وہ واپس ملتان آ سکتے تھے ، نہیں آئے۔ قریشی صاحب کا صاحب زادہ بھی غائب رہا۔ عامر ڈوگر بھی مزے سے اسلام آباد پہنچ گئے حالانکہ انہیں ملتان میں سرگرمی کرنی چاہیے تھی۔بعد میں وہ اپنی سیلفیاں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہے دس بیس لوگوں کے ساتھ۔ انہیں حالانکہ ملتان سے لوگ نکالنے چاہیے تھے۔ عملی طور پر تحریک انصاف اپنے متعددا رکان اسمبلی کے ہوتے ہوئے چند سو کارکن بھی اسلام آباد کے لئے نہ نکال پائی۔ عمران خان کو فرصت ملے تو اس کا جائزہ لینا چاہیے۔

بہاولپور میں بھی کم وبیش یہی معاملہ رہا۔ وہاں کے ایم این ایزآرام سے گرفتار ہوگئے، شائد اس لئے کہ احتجاج کے لئے ہلنا نہ پڑے۔ بہاولپور ڈویژن میں زیادہ سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ تحریک انصاف کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

کارکنوں کو اسلام آباد پہلے بھجوانے کی سوچ
پی ٹی آئی نے اپنی پلاننگ کے تحت مختلف شہروں سے اپنے کارکنوں کا ایک حصہ تین چار دن پہلے ہی اسلام آباد بھجوایا ۔شائد یہ سوچ موجود تھی کہ کہیں حکومت کسی طرح عمران خان کو اٹک پل ہی نہ کراس کرنے دے اور وہ اسلام آباد نہ پہنچ سکیں تو کچھ نہ کچھ مظاہرہ اسلام آباد ہوسکے ۔ اسلام آباد اور پنڈی میں ان کی تنظیم نے بھی خود کو عمدگی سے چھپائے رکھا اور لانگ مارچ کے آخری مرحلے میں وہ سب ظاہر ہوئے، زیرو پوائنٹ اور ڈی چوک کا رخ کیا اور پولیس کی رکاوٹیں بیکار بنا دیں۔ عمران خان کا قافلہ پہنچنے سے پہلے انہوں نے باقاعدہ ماحول بنا دیا۔

عدلیہ سے ریلیف
یہ بھی تحریک انصاف کی اچھی حکمت عملی تھی کہ لانگ مارچ کے حوالے سے رکاوٹیں ہٹانے اور گرفتاریاں نہ کرنے کے حوالے سے پہلے ہی عدالت پہنچ جایا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاریوں کے بارے میں انہیں ریلیف ملا، لاہور ہائی کورٹ نے بھی ایسا کیا۔ سپریم کورٹ نے احتجاج کے لئے جگہ دینے کی سوچ کی حمایت کی اور حکومت اور پی ٹی آئی کو اس پر مذاکرات کے لئے آمادہ کیا۔

ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ سے اس ریلیف کے دو فائدہ پہنچے ۔ ایک تو پولیس کی شدت اور وحشت میں کمی آئی۔ انہیں اندازہ ہوا کہ جنہیں پکڑا، انہیں فوری چھوڑنا پڑ جائے گا، رکاوٹیں بھی پھر ہٹانا مشکل نہ رہا۔ دوسرا رانا ثنااللہ اور ن لیگ کے دیگر” عقاب “رہنماوں کے حوصلے پست ہوئے۔ مریم نواز شریف کو اس لئے جھنجھلا کر یہ کہنا پڑا کہ عدالتیں انہیں ریلیف نہ دیں۔ ان کا یہ کہنا ویسے بذات خود توہین عدالت تھا، مگر یہ ن لیگ کے جارحانہ موقف رکھنے والے حلقے کی فرسٹریشن ظاہر کر رہا تھا۔

گیم آن ہے
کرکٹ کی جدید اصطلاح کے مطابق گیم آن ہے یعنی کھیل ابھی جاری ہے۔ عمران خان اور ان کے کارکن تمام تر رکاوٹوں اور حکومتی جبر، تشدد کے باوجود اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب رہے ۔ یہ ان کی جیت اور ایک لحاظ سے سیاسی فتح ہے۔ ابھی مگر بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ عمران خان کا اصل ہدف حکومت کا ختم ہونا اور اگلے الیکشن کی جلد ڈیٹ ملنا ہے۔ اس کے لئے بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ انہیں بھرپور عوامی قوت کا مظاہرہ کرنا پڑے گااور استقامت کا بھی ۔ ضروری نہیں کہ تب بھی مسئلہ آسانی سے حل ہوجائے ۔اصل جنگ اعصاب کی ہوگی اور یہ بھی کہ مقتدر قوتیں کیا سوچ رہی ہیں؟

Related Posts