جاپانی گاڑیوں کی درآمد وقت کی ضرورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آرام دہ،اعلیٰ سیکورٹی سسٹم،کم ایندھن خرچ کرنے اور محفوظ گاڑی ہر پاکستانی کا خواب ہے،پاکستان میں تیار ہونیوالی گاڑیاں خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے شہریوں کیلئے جاپانی گاڑیاں کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔

پائیداری اور حفاظتی فیچرز کے باعث جاپانی گاڑیاں پاکستان کے عوام کی اولین ترجیح بن چکی ہیں۔لیکن حکومت کی جانب سے آٹو پالیسی میں ترمیم کے بعد بیرون ممالک سے گاڑیاں منگوانا انتہائی دشوار اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیاہے۔

ہم جاپانی گاڑیوں کا پاکستانی گاڑیوں سے موازنہ کریں تو ہماری آٹو انڈسٹری بہت پیچھے دکھائی دیتی لیکن قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام مقامی سطح پر تیار کردہ گاڑیوں کی نسبت جاپانی سے درآمد کی جانیوالی گاڑیوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

مالی سال 20-2019 آٹو انڈسٹری کیلئے مایوس کن تھا، گاڑیوں کی تیاری میں نمایاں کمی نے مارکیٹ کو شدید نقصان پہنچایاجبکہ مقامی اسمبلرز کا یہ خیال قطعی غلط ہے کہ جاپانی گاڑیوں کی درآمد سے ملک کو نقصان ہوتا ہے کیونکہ جہاں پاکستان میں گاڑیوں کی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے جاپانی گاڑیوں کی امپورٹ ضروری ہے وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ جاپان سے گاڑیوں کی درآمد بند ہونے سے پاکستانی ہی متاثر ہوئے ہیں۔

جاپان میں استعما ل شدہ گاڑیاں پاکستان کو فروخت کرنے کی صنعت میں پاکستانی عوام کا نمایاں کردار ہے اوریہ ایکسپورٹرز جاپان سے خطیر زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں اور اس صنعت سے نوجوانوں کو وسیع پیمانہ پر باعزت روزگار ملتا ہے۔

جاپان میں بسنے والے پاکستانیوں سے لے کر کراچی پورٹ کا عملہ کلیئرنگ ایجنٹس، پورٹ سے شو روم تک گاڑیاں پہنچانے والے ڈرائیور،ڈینٹر پینٹر، کمیشن ایجنٹس اورگڈز ٹرانسپورٹ سے لے کر گاڑیوں کی صفائی والے روزگار حاصل کرتے ہیں۔گیس شارٹیج، ماحول، فارن کرنسی ذخائر اور لاکھوں نوجوانوں کے روزگار کی بحالی کے لیے حکومت کوپانچ سال پرانی ہائبرِڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت دینے پر غور کرنا چاہیے۔

ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ سے آئل بل کو 80فیصد کم کیاجاسکتا ہے اور یہی بچت گاڑیوں کی امپورٹ میں استعمال کی جا سکتی ہے جس سے ماحول بھی آلودگی سے پاک ہوسکتا ہے جبکہ بڑے شہروں میں فوگ اور گرمیوں میں شدید گرمی سے بھی نجات مل سکتی ہے۔

گاڑیوں کی درآمد سے حکومت کو ڈیوٹیز کی مد میں اربوں کی آمدنی ہوگی بلکہ پاکستان دنیا میں ترقی کی منازل بھی طے کرے گا اور عوام کی قوت خرید کے مطابق عالمی معیار کی گاڑیاں بھی میسر ہوں گی۔ مقامی اسمبلرز ہر چیز امپورٹ کرتے ہیں اور ڈالر کے بھاؤ میں تبدیلی کے اثرات آٹو انڈسٹری پر پڑتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمتیں  بڑھنے سے 25 ہزار ڈالرز کی جو کار پہلے پاکستانی کرنسی میں 27لاکھ کی مل جاتی تھی مگر وہ 40 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی خریداروں کی قوت خرید تیزی سے کم ہونے لگی ہے۔

ملک میں شرح سود کی وجہ سے بینکوں سے لیز پر گاڑیاں لینے کے رجحان میں بھی کمی ہوئی ہے، پہلے لوگ پانچ لاکھ روپے دیکر بینک لیز پر گاڑی لے لیتے تھے آج وہ بھی شرح سود کی وجہ سے بینکوں  سے گاڑیاں لینے سے گریزاں ہیں حکومت مقامی اسمبلرز کو بھی سہولیات فراہم کرے تاکہ عوام کو گاڑیوں کی مناسب قیمتوں پر فروخت یقینی بنائی جاسکے۔

امپورٹ کی جانیوالی گاڑیوں کے معاملات پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ مڈل مین امپورٹرز کا استحصال نہ کرسکیں اور لوکل اسمبلرز پاکستانی عوام سے مکمل قیمت لینے کے باوجود کئی ماہ بعد گاڑیاں دیتے ہیں جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔

حکومت کو گاڑیوں کی صنعت کو بچانے کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہیں،پاکستان میں گزشتہ 5سال میں دو لاکھ 70 ہزار استعمال شدہ گاڑیاں باہر سے منگوائی گئی ہیں،پاکستان میں گاڑیوں کی امپورٹ پر ڈیوٹی سب سے زیادہ ہے جو3سوفیصد سے بھی زائد ہے۔

درآمد ڈیوٹی کم کرکے 100 فیصد تک کی جائے، حکومت جاپانی گاڑیوں  کی درآمد کی حوصلہ افزائی کرے اورامپورٹ ڈیوٹی کم کرنے کے ساتھ جاپان سے گاڑیوں کی امپورٹ کو صنعت کا درجہ دے تاکہ معیشت کو مزید فائدہ ہو۔

Related Posts