مغربی کنارے کے سب سے بڑے شہر مقبوضہ الخلیل کی مسجدِ ابراہیمی پر چھت پر قبضے کا صہیونی حکم، مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں صہیونی آبادکاروں کی تلمودی رسومات اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی دیوارِ براق کی زیارت، ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں اور اسلامی مقدسات، تاریخی ورثے اور مقامی روایتِ عبادت کے خلاف تیزی سے بڑھتی ہوئی خطرناک سازشوں کا حصہ ہیں۔
آیئے ان واقعات کے پس منظر، تاریخی اور قانونی تناظر، اثرات اور ممکنہ نتائج کو دیکھتے ہیں تاکہ مسئلے کی گہرائی، بین الاقوامی مضمرات اور عملی معنوں میں اس کے اثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکے۔
ابتدائی پس منظر اور تاریخی حیثیت
مسجدِ ابراہیمی (الحرم الابراہیمی) الخلیل کے قدیم شہر میں واقع ایک انتہائی قدیم اور مقدس مقام ہے، جسے مسلم تاریخ میں ابراہیم علیہ السلام کی قبر مبارک اور مقامات کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے، اسے مسلمانوں کے نزدیک چوتھا مقدس ترین مقام شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہودی روایت میں اسے Cave of the Patriarchs کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تاریخی مقام کو 2017 میں یونیسکو نے Hebron/Al-Khalil Old Town کے طور پر عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں داخل کیا تھا اور اس کو خطرے میں قرار دینے والی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا، اس طویل المدتی شناختی اور ثقافتی پس منظر کی بنا پر اس مقام کے انتظام یا اس کی ساخت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا بین الاقوامی قانونی اور اخلاقی معنی ہے۔ UNESCO World
حالیہ اعلان: چھت پر قبضے کا حکم
قابض انتظامیہ نے مسجدِ ابراہیمی کی اندرونی صحن کی چھت کے ایک حصّے (288 مربع میٹر) کو اپنے کنٹرول میں لینے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس اقدام کے ساتھ ساتھ مسجد کے انتظامی اختیارات کو فلسطینی وزارتِ اوقاف اور بلدیہ الخلیل سے ہٹا کر نوآبادیاتی اداروں یا یہودی مذہبی کونسلوں کے حوالے کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ ایسے اقدامات کو علاقائی اور بین الاقوامی حلقوں نے ایک منظم “یہودیانہ سازی” یا ecclesiastical/administrative قبضے کی کوشش کے طور پر دیکھا ہے، جس کا مقصد مسجد کی اسلامی اور فلسطینی پہچان کو کمزور کرنا اور اسے سیاحتی/نوآبادیاتی انتظامات کے ذریعے علیحدہ کرنا بتایا جا رہا ہے۔ ان خدشات کی بنیاد پر متعدد عرب و مسلم ممالک اور تنظیمیں، بشمول عرب لیگ اور بعض وزارتِ خارجہ، نے اس منصوبے کی سخت مخالفت اور یونیسکو اور او آئی سی سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ Foreign Affairs
تاریخی سیاق: 1994 کا سانحہ اور تقسیمِ مسجد
مسجدِ ابراہیمی کی موجودہ تقسیم اور حساس حیثیت کا ایک سبب 1994 کا وہ دل دہلا دینے والا واقعہ بھی ہے جب ایک صہیونی شدت پسند نے نمازِ فجر کے دوران گولی چلائی اور تیس کے قریب نمازی شہید ہوئے۔ اس کے بعد مسجد کے اندرونی انتظامی اور عملی تقسیم کو نافذ کیا گیا۔ 63 فیصد حصہ یہودیوں کے لیے اور 37 فیصد مسلمانوں کے لیے مخصوص کیا گیا اور عبادت کا معمول بدل گیا۔ اسی پس منظر میں کسی بھی نئی انتظامی یا سیکورٹی تبدیلی کو مقامی آبادی حساسیت اور خوف کی نظر سے دیکھتی ہے، کیونکہ وہ اسے پہلے سے جاری نظامِ تقسیم اور قبضہ کی تسلسل سمجھتے ہیں۔
مسجدِ اقصیٰ: تلمودی رسومات
ایک دوسری خبر میں قابض آبادکاروں کی جماعتوں کی جانب سے مسجدِ اقصیٰ کے صحنوں پر مسلسل داخلے اور تلمودی (یہودی مذہبی) رسومات ادا کرنے کے متعدد واقعات درج ہیں۔ اطلاعات کے مطابق قابض فوج کی سخت حفاظتی موجودگی میں آبادکار منظم انداز میں مسجد کے اندر داخل ہوتے، صحنوں میں جھک کر مخصوص رسم ادا کرتے اور کچھ اوقات اشتعال انگیز رویّے اختیار کرتے ہیں۔ مقامی ذرائع اور فلسطینی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ کچھ انتہا پسند گروہ یہ منتظر ہیں کہ وہ 22 تا 24 ستمبر کے درمیان وسیع پیمانے پر داخلوں کا ایک کارڈینل پروگرام نافذ کریں، جس کا مقصد قبلہ اوّل کی اسلامی شناخت کو پھیلائے گئے عملی مظاہروں کے ذریعے بدلنا ہے۔ ایسے دراندازوں اور عبادتی رویوں نے نہ صرف مذہبی کشیدگی بڑھائی ہے بلکہ مقامی شہریوں کی نقل و حرکت اور نماز کی ادائیگی پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جس سے عوامی نظم زندگی متاثر ہو رہا ہے۔
مارکو روبیو کی زیارت:
اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور قابض اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے حصے دیوار براق پر تلمودی رسومات کی ادائیگی قبلہ اول کی تقدس پر کھلا حملہ ہے اور مقبوضہ بیت المقدس میں رائج تاریخی و قانونی حیثیت کی صریح پامالی ہے۔ ایک بیان میں حماس نے واضح کیا کہ یہ شرمناک اقدام عرب و مسلمان اقوام کے جذبات کو براہِ راست للکارنے کے مترادف ہے، عالمی قوانین اور روایات کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ ایک بار پھر امریکہ کی موجودہ حکومت کی قابض اسرائیل کے جرائم میں مکمل شراکت داری اور اندھی جانبداری کو بے نقاب کرتا ہے۔ دیوار براق مسجد اقصیٰ کا لازمی حصہ ہے اور ہمیشہ اسلامی ہی رہے گا۔ قابض صہیونی ریاست اور اس کے سرپرست اپنی سازشوں کے باوجود اس کی اسلامی اور تاریخی شناخت کو کبھی مسخ نہیں کر سکیں گے۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ اقصیٰ کی مقدس چٹانیں ہر حملہ آور کو اگل دیں گی اور مرابطین کے صبر و ثبات پر صہیونی شدت پسندوں کے تمام خواب اور فریب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے۔
بین الاقوامی اور علاقائی ردِعمل
ان واقعات پر فوری طور پر علاقائی اور عالمی تنظیموں کی طرف سے بیاناتی مذمت اور تقاضے سامنے آئے ہیں۔ عرب لیگ، او آئی سی اور بعض مسلم ریاستوں نے اس اقدام کو بین الاقوامی ضوابط اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے یونیسکو سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مغربی صحافتی ذرائع نے بھی القدس میں امریکی سفارتی وفد کی اعلیٰ سطحی سفری حرکات (جیسے مارکو روبیو کی دیوارِ براق پر زیارت) کو ایک سیاسی اشارہ قرار دیا ہے جو مقامی حساسیت کو بھڑکانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ مارکو روبیو کے دورے اور دیوارِ براق پر ان کی شرکت کو حماس اور دیگر جماعتوں نے “تحریکِ جذبات” اور مقامی قانونی حیثیت کی پامالی کہا اور اس پر سخت تنقید کی گئی۔
حقوقی اور اخلاقی تشریح
1. عالمی ورثے کی قانونی حیثیت: چونکہ یونیسکو نے 2017 میں الخلیل کے پرانے شہر اور مسجدِ ابراہیمی کو عالمی ورثے میں شامل اور خطرے میں قرار دیا تھا، اس لیے کسی بھی فریق کی جانب سے اس مقام کا یکطرفہ انتظامی کنٹرول منتقل کرنا یا اس کی ساخت میں تبدیلی لانے کے اقدام کو عالمی قوانین اور کنونشنوں کے تحت چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ یونیسکو کی منظوری ایک بین الاقوامی ذمہ داری کا درجہ دیتی ہے جو تمام ریاستوں خصوصاً مقامی قابض انتظامیہ پر لاگو ہوتی ہے۔
2. مذہبی حقوق اور رسومات کی آزادی: ایک عبادت گاہ کی حیثیت میں مسجدِ اقصیٰ اور مسجدِ ابراہیمی کی رسومات، روزمرہ عبادات اور عوامی داخلہ مقامی کمیونٹی کا بنیادی حق ہیں۔ جب فوجی یا انتظامی پابندیوں کے ذریعے عبادت گزاروں کی رسائی محدود کی جاتی ہے یا جب کسی دوسرے فرقے کے متنازع رسومات کو وہاں لا کر مقامی عبادتی ماحول بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ مذہبی آزادی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی بنیادی شقوں سے ٹکراتا ہے۔
3. وقف اور انتظامی حقوق: اگر واقعی فلسطینی وزارتِ اوقاف اور بلدیہ الخلیل سے انتظامی کنٹرول چھینا جا رہا ہے تو یہ ایک حساس سیاسی جائزہ کا معاملہ ہے، خاص طور پر جب کنٹرول مقامی فلسطینی اداروں سے ہٹا کر بستی یا نوآبادیاتی کونسلوں کو دیا جائے۔ اس کے طویل المدتی نتائج میں مقامی ثقافتی کنٹرول، تاریخی دستاویزات تک رسائی، مرمّت اور عبادت کے طریقہ کار شامل ہیں۔
ممکنہ نتائج اور خطرات:
شناختی علیحدگی: مسجد کو فلسطینی اور اسلامی ثقافتی ماحول سے کاٹ کر ایک الگ انتظامی ڈھانچے کے تحت لانے کی کوشش، مقامی شناخت کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ طویل مدت میں تاریخی روایات اور معاشرتی ربط میں بگاڑ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
کشیدگی اور ردِ عمل: عبادت گاہوں میں انتظامی یا سیکیورٹی تغیرات اکثر مقامی احتجاج، مذہبی اجتماعات اور بدلے میں سخت کنٹرول یا پابندیوں کو جنم دیتے ہیں، جو دوبارہ پورے خطے میں کشیدگی بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
بین الاقوامی قانونی تنازع: یونیسکو کی شناخت اور عالمی ورثے کی فہرست میں شمولیت کی وجہ سے یہ معاملہ بین الاقوامی قانونی فورمز تک پہنچ سکتا ہے، اور اقوامِ متحدہ یا علاقائی ادارے اس پر قراردادیں یا دیکھ بھال مقرر کر سکتے ہیں۔
مقامی حکمتِ عملی اور حفاظتی تجاویز (ممکنہ عملی اقدامات)
1. معلوماتی مہم اور شواہد کی دستاویز کاری: مسجد کے حقیقی خدوخال، تاریخی دستاویزات، انتظامی فیصلے اور مسلسل نقائص کی منظم دستاویز کاری ضروری ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر مضبوط کیس پیش کیا جا سکے۔
2. مقامی اور بین الاقوامی دباؤ: فلسطینی ادارے یونیسکو، او آئی سی، اقوامِ متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں سے فوری مداخلت اور موقع پر مشاہدہ مشن طلب کریں۔ بین الاقوامی دباؤ بعض اوقات ایسے یکطرفہ اقدامات روکنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
3. عوامی عبادت اور رباط: مقامی مذہبی قیادت جو اپیل کر رہی ہے کہ عوام مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدسات میں بڑھ چڑھ کر شرکت کریں۔ یہ ایک طرح کا عوامی سیاسی اظہار ہے۔ تاہم ایسی اپیل میں لاٹھی کے زور پر یا تشدد کے امکانات کا جائزہ بھی ضروری ہے؛ قیادت کو پرامن اور قانون کے اندر رہتے ہوئے احتجاج کی حکمتِ عملی اپنانی چاہیے۔
4. قانونی چارہ جوئی: ممکنہ طور پر بین الاقوامی انسانی حقوق یا بین الاقوامی عدالتی فورمز میں یہ معاملہ اٹھایا جا سکتا ہے، مگر اس کے لئے مضبوط دستاویزات اور قاعدۂ قانونی تیاری درکار ہے۔
مسجدِ ابراہیمی اور مسجدِ اقصیٰ جیسے مقدسات صرف مقامی عبادت گاہیں نہیں۔ یہ تاریخی، ثقافتی اور قومیتی شناخت کے مرکز ہیں۔ جب ان کی انتظامی حیثیت، رسومات اور عوامی رسائی پر ایک مخصوص سمت میں یکطرفہ تغیرات لاگو کیے جائیں تو اس کے نتائج محض مقامی نہیں رہتے، بلکہ خطے کی مجموعی حیثیت، بین الاقوامی تعلقات اور اخلاقی ضوابط پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ موجودہ رپورٹس اور حکومتی بیانات سے واضح ہے کہ معاملہ نہایت نازک مرحلے میں ہے: ایک طرف عالمی ادارے اور علاقائی حکومتیں تشویش جتا رہی ہیں، دوسری طرف مقامی فلسطینی کمیونٹی اس کے تحفظ اور اپنی مذہبی-ثقافتی خودمختاری کے دفاع کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے۔ بین الاقوامی دباؤ، واضح دستاویز کاری اور پرامن عوامی شرکت وہ ممکنہ راستے ہیں جن کے ذریعے موجودہ خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے، ورنہ ہم ایک طویل المدتی تاریخی نقصان اور مسلسل تشدد کے دائرے کی طرف جا سکتے ہیں۔













گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں


