فواد چوہدری کا حیران کن بیان: کیا واقعی حکومت اپوزیشن اتفاقِ رائے کا کوئی وجود ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وفاقی وزیر  برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کل اپنے بیان میں حکومت اور  اپوزیشن کے درمیان اتفاقِ رائے کا تاثر دیا جو غیر فطری اتحاد کے باعث شدید مشکلات کا شکار  تحریکِ انصاف حکومت کے مسائل سے واقف عوام الناس کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہے۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ  آرمی ایکٹ سے تعاون کا جو ماحول پیدا ہواوہ بہت اچھے طریقے سے آگے بڑھا ہے۔الیکشن کمیشن پر اتفاق رائے بڑی کامیابی ہے اب اگلا مرحلہ احتساب کے طریقہ پر اتفاق رائے ہے۔ اس پر بھی بات چیت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر ہم بڑی اصلاحات کر لیں تو سیاسی اختلافات نقصان نہیں پہنچاتے۔

سب سے پہلے ہم یہ واضح کردیں کہ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا بیان اسی حد تک بالکل ٹھیک ہے جس حد تک انہوں نے فرمایا یعنی اپوزیشن جماعتوں کا آرمی ایکٹ پر اتفاقِ رائے اور الیکشن کمیشن اراکین بشمول چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر اتفاقِ رائے واقعی تحریکِ انصاف کی بڑی کامیابیاں ہیں، اس سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔

رہی احتساب کے طریقۂ کار پر اتفاقِ رائے کی بات تو فی الحال اس پر اظہارِ رائے ہمارا مقصد نہیں۔جب تک اس حوالے سے کوئی واضح پیش رفت نظر نہیں آتی،  ہمارا نکتۂ اعتراض حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ اتفاقِ رائے پر ہےاور اس بات پر بھی کہ سیاسی اختلافات بڑی اصلاحات کے بعد نقصان نہیں پہنچاتے۔ اپوزیشن کی رائے پر آپ ایک اصلاح لے آئیے، انہیں ایک نیا اختلاف ہوگا اور نئی اصلاح کے بعد پھر نیا اختلاف سامنے آئے گا۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا جائے گا۔ 

غور فرمائیے تو اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے اِن ہاؤس تبدیلی کی بات براہِ راست وزیر اعظم عمران خان کو نشانہ بنانے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اسی بات کو مائنس ون فارمولا بھی کہا جاتا ہے جس کے تحت اگر تحریکِ انصاف کی اتحادی ایم کیو ایم، ق لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں اگر اپوزیشن کی جھولی میں جا گریں تو حکومت خود گر جائے گی۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو خالی ہاتھ سمجھنے والے اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بہت بڑی بھول کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو مجبور بھی کردیا جائے تو مائنس ون فارمولا لانے والوں کو مائنس آل کی راہ دکھا سکتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں اگر اسمبلیاں ہی تحلیل کردی جائیں تو باقی کیا بچے گا؟

اس لیے وزیر اعظم عمران خان اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے آنکھیں دکھانے سے بھی زیادہ پریشان نظر نہیں آتے، تاہم انہیں فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے ضرور دیکھا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے متعدد مواقع پر یہ الفاظ کہے کہ ”میں آخری وقت تک لڑوں گا اور میں باقاعدہ اس کی تربیت حاصل کرچکا ہوں۔“ اس سے کیا آپ کیا مراد لیں گے؟

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم کے آخری وقت تک لڑنے سے کیا مراد ہے۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو صاف الفاظ میں بتا دیا کہ مائنس ون کا فارمولا نہیں چلے گا۔ اگر میرے وفاقی وزیر بھی میرے خلاف کھڑے ہوجائیں تو میں ہار کر ایک طرف نہیں ہوجاؤں گا، بلکہ ڈٹ کر آخری وقت تک مقابلہ کروں گا، آپ جو چاہیں کرکے دیکھ لیں۔ ہم ہار نہیں مانیں گے۔ 

وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری سے ہمارا اختلاف صرف اتنا ہے کہ اتفاقِ رائے کا تاثر آپ کی حکومتی پالیسی کا حصہ تو ضرور ہوسکتا ہے، تاہم اس سے وزیر اعظم عمران خان کی تحریکِ انصاف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے ہونے والی رسہ کشی سے صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔

سب سے آخر میں ایک وضاحت کرتے چلیں کہ سیاست میں حرفِ آخر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جو آج حریف ہیں وہ کل دوست بن سکتے ہیں اور جو کل حلیف تھے، وہ آج مخالفین بن کر سامنے آسکتے ہیں، اس لیے اپوزیشن رہنما وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ وقتی اتفاقِ رائے کرتے تو ضرور نظر آئیں گے لیکن اس کے پیچھے چھپی حقیقت سے ہم سب کو واقف ہونا چاہئے۔ 

 

Related Posts