ملکی ادارے اور نظامِ مملکت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وطنِ عزیز پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کسی بھی دور میں جرائم، سیاسی بحران اور معاشی مسائل سمیت کوئی بھی مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوسکا۔ عوام ووٹ دے کر جس حکومت کو منتخب کرتے تھے، اسے فوجی آمر منہ کے بل گرادیا کرتے اور فوج جو امن کیلئے جانیں قربان کرتی ہے، اس کی قربانیوں کو سیاستدان مذاکرات کی میز پر ضائع کردیتے تھے۔

قومی و سیاسی مسائل قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی شروع ہوئے جب 1948ء میں قائدِ اعظم کا انتقال ہوا۔ 60ء کی دہائی کی بات کریں تو محترمہ فاطمہ جناح سے زیادہ عوام کیلئے ملک کی مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کا سب سے زیادہ حقدار کون ہوسکتا تھا؟ لیکن جیتا کون؟ اور اگر 70ء کی دہائی میں چلے جائیں تو سقوطِ ڈھاکہ کا عظیم سانحہ دیکھنے کو ملتا ہے جہاں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا اور ہم دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست کے لقب سے محروم ہوئے اور بعد ازاں 90ء کی دہائی میں کہیں جا کر پہلی ایٹمی اسلامی طاقت بنے۔

عدلیہ کے معاملے میں زیادہ دور کیوں جائیں؟ سابق آرمی چیف جنرل مشرف کو سزائے موت سنانا درست تھا یا نہیں، اس پر کوئی تبصرہ نہ کرتے ہوئے کیا مشرف کی لاش کو چوراہے پر لٹکانے جیسے ریمارکس کی کوئی توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے؟ اس پر آئی ایس پی آر نے جو بیان جاری کیا، اس سے ہر محبِ وطن شہری کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ واقعی اگر سابق آرمی چیف کو سزائے موت دی جائے گی تو سرحد پر کھڑے فوج کے سپاہی کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  کی توسیعِ ملازمت کے کیس کو اتنا اچھالا گیا کہ ہمسایہ ملک بھارت اور جنوبی ایشیاء تو دور کی بات، یورپ اور امریکا میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔

سیاستدانوں نے بڑی بڑی غلطیاں کیں جس کے نتیجے میں ملک آج فرقہ وارانہ مذہبی اور لسانی فسادات کا شکار ہے۔مشرف دور میں افغانستان سے متعلق پالیسی کو یکلخت جس طرح امریکا کے حق میں تبدیل کیا گیا، اس کے نتیجے میں آج تک ہم عافیہ صدیقی کیس اور دہشت گردی سمیت مختلف گوناگوں مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ لسانی بنیاد پر کھڑی جماعتوں نے بھی فرقہ واریت اور لسانی منافرت کو ہوا دی۔

ملکی و قومی اداروں کی بات کریں تو پی ٹی اے اور پیمرا سے لے کر قومی احتساب بیورو (نیب) تک ملک کا کون سا ایسا ادارہ ہے جو اپنا کام ٹھیک طریقے سےسرانجام دیتا ہو؟ سیاستدانوں پر کیسز بنائے جاتے ہیں اور گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں لیکن وہ بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں اور حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ ملک کے کون سے صوبے میں ہم نے امن و امان قائم کیا ہے؟ جرائم کی بات کی جائے تو چوری اور ڈکیتی تو عام سی بات بن کر رہ گئی ہے۔ لوگوں کی عزت و آبرو اور جانیں تک محفوظ نہیں۔

صحافت کو ملکی ریاست کا چوتھا ستون خیال کیا جاتا ہے۔ زرد صحافت، بلیک میلنگ، جرائم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے عوام کو خوفزدہ کرنا اور اپنی مرضی کی رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے خبروں سے کھیلنا آج میڈیا کی پائندہ و تابندہ روایت بن چکی ہے جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ 

جی ہاں، آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہے ہیں جہاں کوئی کام ٹھیک نہ ہوتا ہے، نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہونے دیا جاتا ہے۔ مہنگائی، اقربا پروری، رشوت ستانی اور کرپشن سمیت ملک کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں اگر ملکی اداروں کو ٹھیک کردیا جائے۔ جرائم پر قابو پانے کیلئے پولیس اور عدلیہ جبکہ سیاسی بحرانوں کو کنٹرول کرنے کیلئے احتساب کے نظام میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکمراں سیاسی جماعت تحریکِ انصاف صرف انصاف پر ہی توجہ دے لے تو ہر مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

Related Posts