ہندوستان کے دعوے

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ ماہ پاکستان کی جانب سے اپنا نیا نقشہ جاری کیا گیا تھا، جس میں پاکستان میں نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ظاہر کیا، یہ سب کچھ بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا،دوسری جانب بھارت اپنے اندورونی چیلنجز جیسے کہ بڑھتے ہوئے کورونا وائرس کے کیسز سے نمٹنے کے بجائے پاکستان کو مسلسل دھونس اور دھمکیوں پر اترا ہوا ہے۔

اس سارے معاملے کے شروع میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جب شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے ورچوئل سربراہی کا اجلاس جاری تھا اس دوران جب پاکستان کا نقشہ سامنے آیا تو ہندوستانی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے پاکستان کے سیاسی نقشہ پر اعتراض کیا،اُس وقت ان کے اعتراض کو مسترد کردیا گیا تھا، اس سارے معاملے کے بعد ڈوول کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ وہاں سے اُٹھ کرچلے گئے۔

نئے نقشے پر پاکستان کو چین اور روس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ لداخ خطے میں چین کا بھارت سے اپنا سرحدی تنازعہ ہے،جہاں اب بھی صورتحال کشیدہ ہے۔ چین اروناچل پردیش ریاست کو تسلیم نہیں کرتا، اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ جنوبی تبت کا ایک حصہ ہے۔ یہاں تک کہ نیپال جیسے چھوٹے ممالک نے ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا ہے،جس میں ہندوستان کے دعویدار علاقے کو دکھایا گیا ہے۔ جس کے باعث بی جے پی کی زیرقیادت حکومت کی تمام عالمی فورمز تذلیل ہورہی ہے۔

پاکستان نے ان تمام بھارتی دعوؤں کو مسترد کردیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ نقشہ میں ہندوستانی سرزمین کے کچھ حصے شامل ہیں بلکہ دیکھا جائے تو اس میں کشمیری عوام کے حقوق اور خواہشات شامل ہیں۔ اقوام متحدہ اس ہفتے سالانہ جنرل اسمبلی کا انعقاد کر رہی ہے اور کشمیر ایجنڈے کا حصہ ہے۔ عالمی فورم میں اس مسئلے سے توجہ ہٹانے میں بھارت اپنی کوششوں میں ناکام رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان 25 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے، ہم سب جانتے ہیں کہ کشمیروزیر اعظم عمران خان کی تقریر کا حصہ ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی یکطرفہ کارروائی کو ایک سال گزر چکا ہے اور مظلوم کشمیریوں کو طرح طرح سے مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس سارے معاملے کو اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔

اسی تناظر میں ہم نے کشمیر کے وزیر گنڈا پور کا بیان بھی سنا کہ گلگت بلتستان کومکمل آئینی حقوق کے ساتھ ایک علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے گا، جو یقینا بھارت کے لئے اچھی خبر نہیں ہوگی، اس کے باوجود، بھارت جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ اپنے کھوکھلے دعوؤں سے باز نہیں آرہا، ہندوستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کی کارروائیاں کرکے اُسے کچھ حاصل نہیں ہونے والا اور اُس کے اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

Related Posts