آئی ایم ایف کو درکار یقین دہانیاں

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آئی ایم ایف نے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری سے قبل نمایاں سیاسی جماعتوں، خاص طور پر مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور پی ٹی آئی سے بھی بات چیت کی ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے (پی ٹی آئی) کو تشویش اس لیے لاحق ہوئی کیونکہ موجودہ حکومت آئندہ ماہ مدت مکمل کرنے کے بعد ختم ہوجائے گی جبکہ آئی ایم ایف کو یقین دہانی چاہیے کہ اس کے پروگرام میں طے کردہ شرائط کو نافذ بھی کیا جائے گا۔

یہ غیر معمولی اقدام آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے چند روز قبل سامنے آیا جس میں پیکج کو حتمی شکل دینے سے قبل انتظامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

پاکستان کو پروگرام جاری کرنے سے قبل غیر متوقع طور پر طویل تاخیر کی گئی، جس سے یہ قیاس آرائیاں سامنے آئیں کہ فنڈز جلد ہی جاری نہیں کیے جائیں گے۔ یوں پاکستانی قوم ڈیفالٹ کے دہانے تک جا پہنچی اور قرض ادائیگیوں کے عدم استحکام کا شکار ہونے لگی، تاہم اس دوران حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کیلئے زیادہ تر بے سود کوششیں کیں، پھر بھی آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کی نوید سامنے آگئی۔
آئی ایم ایف نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم سیاسی جماعتوں کی اقتصادی ٹیموں سے ملاقات کریں گے تاکہ معاہدے کے مقاصد پر ان کی یقین دہانی حاصل کی جا سکے۔ یقینی طور پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ ملاقات سے موجودہ حکومت  ناراض بھی ہوئی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان  موجودہ حکومت کی جانب سے دیوار سے لگائے جانے کی کھلم کھلا کوششوں کے باوجود تاحال ملکی سیاست میں اہم شخصیت کے طور پر برقرار ہیں۔

سابق حکمراں سیاسی جماعت تحریکِ انصاف نے انتخابات کے انعقاد تک بیل آؤٹ پیکج کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور اس بات کو برقرار رکھا ہے کہ ڈیل پر مذاکرات کا حق اگلی حکومت کو ہوگا۔
آئی ایم ایف یقینی طور پر انتخابات کے انعقاد پر آنے والی حکومت کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے، جیسا کہ یہ امید ہے کہ انتخابات رواں برس ہی منعقد ہونے ہیں، اور آئی ایم ایف اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ نئی حکومت معاہدے کی پاسداری ضرور کرے گی۔

حالیہ مہینوں میں  آئی ایم ایف نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی مخصوص پارٹی کی حمایت نہیں کرتا اور جو بھی اگلی حکومت بنائے گا اس کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔
تاہم یہ سیاسی بحث جاری رہے گی کہ آیا موجودہ معاشی اور سیاسی ماحول میں پی ٹی آئی کو اب بھی ایک متعلقہ کھلاڑی سمجھا جاتا ہے یا نہیں؟  پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف معاہدے کے مجموعی مقاصد اور کلیدی پالیسیوں کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ سیاسی استحکام کے لیے معاشی استحکام ضروری ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے بعد نئی حکومت کو طویل مدتی اصلاحات پر کام کرنے کا مینڈیٹ دیا جائے گا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ آئی ایم ایف کی ملاقاتوں کے بارے میں آگاہ تھی یا نہیں۔ حکومت اس سے قبل آئی ایم ایف کے سیاسی استحکام سے متعلق بیان پر رد عمل کا اظہار کر چکی ہے۔

 آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ سیاسی معاملات طے پا جائیں اور ڈیل کی منظوری سے قبل الیکشن بھی کرائے جائیں اور اسی ایک نکتے پر موجودہ حکومت ناراض ہوئی۔ حکومت کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس بات سے باخبر ہے کہ پی ٹی آئی معاہدے میں اسٹیک ہولڈر بنی ہوئی ہے۔

Related Posts