دفعہ 124اے اور انسانی حقوق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جب تک حکومت برقرار رہی، سابق وزیرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کے ذہن میں ایسا کوئی خیال نہیں تھا، لیکن اب جب حکومت جا چکی تو یکایک وہ اسلام آباد ہائیکورٹ یہ درخواست لے کر پہنچ گئیں کہ آئینِ پاکستان کی دفعہ 124 اے انسانی حقوق سے متصادم ہے۔

راقم الحروف نے دفعہ 124 اے کا بغور مطالعہ کیا جو کہتا ہے کہ اگر کوئی بھی شہری الفاظ کے ذریعے بولے یا تحریری یا اشاروں یا ظاہری نمائندگی یا کسی اور صورت میں (ریاستِ پاکستان کے خلاف بغاوت کیلئے) نفرت یا حقارت کا اظہار کرے یا جوش یا بیزاری پیدا کرے یا پیدا کرنے کی کوشش کرے، تو اسے وفاقی یا صوبائی حکومت عمر قید اور جرمانے یا پھر 3سال تک قید اور جرمانے کی سزا دے سکتی ہے۔

بظاہر تو آئین کی یہ دفعہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نہیں لگتی کیونکہ ریاست کے خلاف بغاوت کیلئے اکسانا یا بیزاری پیدا کرنا یا پھر نفرت کا اظہار کرنا کسی بھی طرح آزادئ اظہارِ رائے قرار نہیں دیا جاسکتا اور اگر ریاستِ پاکستان اس پر سزا دینا چاہے تو اس کو اس کا اختیار ہونا چاہئے تاہم ڈاکٹر شیریں مزاری اس سے اختلاف  رکھتی ہیں۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعزیراتِ پاکستان کے تحت بغاوت کی دفعہ 124 اے کے خلاف شیریں مزاری کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ججز بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔

مقدمے کی سماعت کیلئے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری وکیل ابوذر سلمان نیازی کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔ وکیل کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ بغاوت کی دفعہ 124 اے اظہارِ رائے کی آزادی سلب کرنے کیلئے استعمال ہورہی ہے اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم بھی ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی حکومت میں بھی بغاوت کے الزامات کے تحت مقدمات درج ہوئے۔ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔ شیریں مزاری کو چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ چلی جائیں۔ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرے گی۔ سب کو پارلیمان پر اعتماد کرنا ہوگا۔

اس سے ایک روز قبل ہی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو توہینِ عدالت اور خاتون جج کو دھمکانے کے کیس میں اسی عدالت کے روبرو معذرت کرنی پڑ گئی تھی۔ عمران خان نے کہا کہ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ میں نے اپنی حدود پار کی ہیں تو معافی مانگتا ہوں۔

عدالت نے عمران خان کے خلاف فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی مؤخر کردی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر اس روز عمران خان معذرت نہ کرتے تو فردِ جرم شاید اسی روز عائد کردی جاتی جس سے ملک میں ایک نیا سیاسی بحران جنم لے سکتا تھا۔

جہاں تک دفعہ 124 اے کا تعلق ہے تو ہم جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت اسے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کیلئے بغاوت کے مقدمات میں استعمال کرچکی ہے جس پر پی ٹی آئی کا اعتراض بجا طور پر درست ہے تاہم عدالت کی معذرت بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ اگر آئین میں ترمیم کرنی ہے تو اس کا باضابطہ فورم تو پارلیمنٹ ہے، عدالت نہیں۔

یہاں ایک دلچسپ سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا شیریں مزاری کو یہ علم نہیں تھا کہ اگر قانون میں ترمیم کرنی ہو تو اس کا درست فورم کیا ہے؟ یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ لے کر جانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ تو حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمان کا دروازہ کھٹکھٹانا ہی نہیں چاہتی۔

جس روز سابق وزیر اعظم عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد لا کر عہدے سے برطرفی پر مجبور کیا گیا، اسی روز سے پی ٹی آئی مسلسل پارلیمان کی انکاری ہے اور تحریکِ انصاف رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہم نہ امپورٹڈ حکومت کو مانتے ہیں، نہ اس قومی اسمبلی کی کارروائی کو جس کو غیر ملکی سازش کے ذریعے مسلط کردیا گیا۔

آپ کا سیاسی مؤقف اپنی جگہ، لیکن پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں جس طرح ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم جماعتوں کو جو فری ہینڈ دے رکھا ہے، اس کی وجہ سے بھی عوام کے بنیادی انسانی حقوق بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ تحریکِ انصاف عدلیہ کا پارلیمان سے رجوع کرنے کا مشورہ تسلیم کرلے تاکہ سیاسی بحران سے نجات کی راہ بھی ہموار ہوسکے۔ 

Related Posts