سال 2020ء کو الوداع کیسے کہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بلاشبہ ہر نیا سال جنوری سے شروع ہو کر دسمبر پر ختم ہوتا ہے تاہم ہر بار جب ایسا ہوتا ہے تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ نئے سال کو خوش آمدید اور داغِ مفارقت دے کر جدا ہونے والے برس کو الوداع کیسے کہیں؟

ایسا اِس لیے نہیں ہوتا کہ ہمیں سالِ گزشتہ کو الوداع اور سالِ آئندہ کو خوش آمدید کہنے یا نہ کہنے پر کوئی اختیار ہوتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ایک سال کا اختتام اور دوسرے کی آمد ہم انسانوں کیلئے ایک لمحۂ فکریہ ہوتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس موقعے پر کوئی اہم کام کیا جائے لیکن اس سے بڑا سوال یہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اہم کام کیا ہوسکتا ہے؟

بعض لوگ احتساب کو سب سے اہم کام سمجھتے ہوئے سال بھر کے مثبت اور منفی کاموں کی تفصیلات، جمع تفریق، کاروباری منافعے اور خسارے کی تفصیلات اور کارگزاریاں لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور بعض لوگ گزشتہ سال کو یکسر فراموش کرکے یہ سوچنے میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ آئندہ سال کیلئے لائحۂ عمل، حکمتِ عملی یا مستقبل کی پالیسی کیا ہونی چاہئے؟

اسلامی شریعت میں عدل و مساوات، رواداری، اخوت اور اخلاق کے زریں اصولوں کے ساتھ ساتھ احتساب کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر قرآنِ پاک میں جگہ جگہ منافقین اور کافروں کیلئے دوزخ اور مسلمانوں کیلئے جنت کا تصور تو ضرور ملتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انہیں یہ جنت یا جہنم ان کے اعمال کی بنیاد پر ملے گی۔

قرآنِ پاک میں سورۂ حاقہ کی آیت نمبر 24 کے مطابق جنت سے لطف اندوز ہونے والے مسلمانوں اور مومنین سے کہا جائے گا کہ فردوس میں ان اعمال کے بدلے میں کھاؤ اور پیو جو تم نے زندگی کے گزشتہ ایام میں آگے بھیجے تھے۔

دوسری جانب سورۂ فاطر میں یہ ذکر ملتا ہے کہ جہنم میں سزا پانے والے منافقین اور کفار سے  پوچھا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ تم میں سے جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ سوچ سکتا اور تمہارے پاس (جہنم سے) خوف دلانے والا (نبی) بھی آچکا تھا۔ تو عذاب کا مزہ چکھو، سو ظالموں کا مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔

بخاری شریف میں حدیثِ مبارکہ ہے کہ دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں جو صحت اور فارغ وقت ہے جبکہ ترمذی شریف میں ہے کہ قیامت کے روز بندہ اس وقت تک (اللہ کے حضور) کھڑا رہے گا جب تک اس سے 4 باتوں کے متعلق سوال نہ پوچھ لیا جائے۔

سب سے پہلا سوال ہوگا کہ اس نے زندگی کیسے گزاری؟ دوسرا سوال ہوگا کہ علم پر کتنا عمل کیا؟ تیسرا سوال ہوگا کہ مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا جبکہ چوتھا اور آخری سوال یہ کیا جائے گا کہ اپنا جسم کس کام میں استعمال کیا۔

ایک مسلمان کیلئے سال بھر میں جنوری سے لے کر دسمبر تک یا پھر اسلامی سال کی پیروی کرنے والوں کیلئے یوں کہیے کہ محرم سے لے کر ذی الحجہ تک اپنے احتساب کیلئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے۔

اس لیے ہمیں چاہئے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بار بار اپنا احتساب کرتے رہا کریں اور بالخصوص جب نیا سال شروع ہو تو اس وقت اپنے اعمال کا تجزیہ ضرور کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ نے اپنے کس کام سے اللہ تعالیٰ کو خوش یا ناراض کیا۔

دنیا و دین کی کامیابی کیلئے یہ ضروری ہے کہ احتساب کے عمل کو سال بھر جاری رکھا جائے تاہم اپنے احتساب کیلئے ہر سال، ہر مہینے اور ہر ہفتے کے پہلے روز اہتمام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور بہتر ہے کہ جب کوئی شخص ایسا کر رہا ہو تو اسے دیکھ کر اس کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے۔

ہر گزرتے روز کے ساتھ اپنے معیارِ زندگی کو بہتر کرنا، اپنے اعمال کو نیک سمت میں مزید نکھارنا، بچوں کے ساتھ محبت اور بڑوں کے احترام میں اضافہ کرنا آپ کی شخصیت کو بہتر سے بہتر کرے گا۔

یہاں یہ نصیحت بھی ضروری ہے کہ خوشی کے اظہار کیلئے ہوائی فائرنگ کرنا، ہمسایوں کو پریشان کرنا اور نیو ائیر سیلیبریشن یعنی نئے سال پر خوشی کی تقریب کے نام پر غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سمیت دیگر اہم مسائل سے تنگ عوام الناس کو ذہنی اذیت اور جسمانی تکلیف سے نہ گزارا جائے۔ 

Related Posts