کیا آج عمران خان جیتے ہیں؟ اگلا معرکہ کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا آج عمران خان جیتے ہیں؟ اگلا معرکہ کیا ہوگا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے جو قوانین منظور کرائے، ان کے مختلف پہلو ہیں،حکومت نے کچھ حاصل کیا، کچھ کھویا اور بعض پر ابھی دھند ہے،مستقبل قریب میں ہی ان کے بارے میں درست اندازہ ہوسکے گا۔

سب سے پہلے یہ بات تسلیم کرنا چاہیے کہ ان قوانین کی پارلیمنٹ سے منظوری حکومت کی سٹریٹجک کامیابی ہے اور اپوزیشن صرف چند ارکان اسمبلی کے نہایت قلیل فرق کے باوجود حکومت کو روکنے میں ناکام رہی۔ صرف چند دن پہلے تک یوں لگ رہا تھا کہ مشترکہ اجلاس میں کامیابی حکومت کے بس کی بات نہیں۔

اتحادیوں کے اعلانیہ شکوے، ناراض ارکان کا احتجاج، حکومتی ٹیم کی مشہور زمانہ نااہلی اور ناتجربہ کاری۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب کے پیش نظر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شائد عمران خان کو ایک اور پسپائی، ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آخری تجزیے میں ایسا نہیں ہوا۔ قوانین غلط تھے یا ٹھیک، اس بحث سے قطع نظر حکومت نے جو سوچا تھا، بہرحال اس پر مکمل عمل درآمد کر ڈالا۔ اپوزیشن نے جو سوچا تھا، وہ اسے عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ اس اعتبار سے حکومت کامیاب رہی، اپوزیشن ناکام۔

ایک پہلو جو پارلیمانی روایات کے اعتبار سے بہت اہم ہے اور اگر قوانین کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا تو یہ نکتہ ضرور اٹھایا جائے گا، وہ اتنی غیر معمولی اور غیر ضروری عجلت میں منظوری ہے۔

ان میں سے بیشتر قوانین بہت اہم ہیں، بعض پر میڈیا میں مباحث چلتے رہے، مگر کئی قوانین کی منظوری کے بعد ہی پتہ چلا کہ اچھا یہ بل بھی شامل تھا۔ اس میں کیا تھا، یہ نہ اراکین پارلیمنٹ جانتے نہ میڈیا کے جغادری رپورٹروں کو اس کی خبر ہوئی۔

مشترکہ اجلاس اگر چند دن چلتا رہتا اور ان قوانین پر کھل کر بات ہوسکتی تو اس میں کیا برائی تھی؟ فیصلہ تو تب بھی عددی اکثریت سے ہونا تھا، مگر ممکن ہے کسی قانون کے کمزور پہلو سامنے آنے پر اسے بہتر بنایا جا سکتا۔

اتنی عجلت میں درجنوں قوانین منظور کرانے سے حکومت کی نیک نامی نہیں ہوئی نہ ہی سیاسی، جمہوری، پارلیمانی روایات کو تقویت پہنچی۔ اس اعتبار سے حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یہ اس کی ناکامی ہے۔

سب سے زیادہ ہنگامہ انتخابی قوانین کے حوالے سے دو بلوں پر تھا۔ ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تنازع زیادہ رہا۔ اپوزیشن کا رویہ اس حوالے سے سخت اور بے لچک تھا۔

حکومت نے بھی تہیہ کر رکھا تھا کہ اس بل سے پیچھے نہیں ہٹنا۔ آخرکار حکومت نے عددی اکثریت سے یہ بل تو منظور کرا لیا،مگر شائد یہ بل ان کے اپنے گلے کی ہڈی بن جائے۔

ای وی ایم مشینوں کے حوالے سے مختلف آرا ہیں، اس پر ہونے والے اعتراضات بھی مضبوط ہیں اور اس کی وکالت کرنے والے بھی کمزورموقف نہیں رکھتے۔ میرے خیال میں اس بل پر سیاسی گیمنگ زیادہ کھیلی گئی ہیں۔

اپوزیشن اگر کچھ تعاون کرتی تو شائد یہ بل زیادہ بہتر انداز میں بن پاتا اور حکومت بھی تھوڑا صبر سے کام لیتی اور الیکشن کمیشن کو اس پر تفصیلی بریفنگز دے کر اپنا ہم خیال بنا لیتی۔

کسی ضمنی الیکشن یا بلدیاتی انتخابات کے کسی مرحلے میں اس پر عمل درآمد ہوجاتا تو اس کی مخالفت کم ہونے کے امکانات تھے۔ اس وقت تو اس بل کے حوالے سے بہت سے شکوک وشبہات موجود ہیں۔

مزے کی بات ہے کہ تحریک انصاف یہ بل اس لئے لائی کہ پارٹی ذرائع کے مطابق عمران خان کو یہ خدشہ ہے کہ اگلے الیکشن میں ان کے ساتھ ہاتھ ہوسکتا ہے اور ممکن ہے یہ وہی لوگ کریں جو ان کے سرپرست رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ الیکٹرانک مشینیں اس خطرے کو خاصی حد تک کم کر دیں گی۔ تحریک انصاف کے اعلیٰ سرکلز کا خیال ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی نے لاکھوں یا دو سے تین ملین ووٹ جعلی بنائے ہوئے ہیں اور ان مشینوں سے یہ جعلی ووٹ روکے جا سکتے ہیں۔

دوسری طرف اپوزیشن کو یہ خطرہ ہے کہ تحریک انصاف ان مشینوں سے فائدہ اٹھائے گی اور ان کے سرکلز میں یہ رائے بھی ہے کہ مقتدر قوتیں اگلے الیکشن پر اثرانداز ہونے کے لئے ان مشینوں کو ذریعہ بنا سکتی ہیں۔ یعنی دونوں اطراف میں ایک سے شکوک موجود ہیں۔

ایک معنی خیز کمنٹ آصف زرداری نے کیا، جس پر کم لوگوں کی توجہ گئی۔ زرداری صاحب نے کہا آج بیج بو دیا گیا مگر اس کا پھل دوسروں کو ملیگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف چاہے بھی تو ان مشینوں سے براہ راست فائدہ نہیں اٹھا سکتی کیونکہ الیکشن انہوں نے نہیں کرانا۔ آئینی اعتبار سے الیکشن نگران حکومت ہی کرائے گی اور وہ قائد حزب اختلاف کی منظوری سے ہی آتی ہے۔ نگران حکومت غیر جانبدار ہونے کے باوجود الیکشن کا پورا عمل الیکشن کمیشن کے زیرنگرانی ہو گا۔

تمام پریزائیڈنگ افسر الیکشن کمیشن ہی نے مقرر کرنے ہیں یعنی کسی بھی پولنگ سٹیشن پر اس مشین کے غلط استعمال کا اگر کوئی امکان موجود ہے تو وہ بھی الیکیشن کمیشن کے ماتحت آنے والے اہلکار ہی کر سکتے ہیں، حکومتی پارٹی کے پولنگ ایجنٹ نہیں۔

یہ تو خیر سب پر واضح ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے لئے قطعی نرم گوشہ نہیں رکھتا اور انہوں نے بہت سے معاملات پر حکومت کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔

یہ بل عدالتوں میں چیلنج ہونے کا قوی امکان ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے بارے میں ہم امکانی رائے بھی نہیں دے سکتے، مگر الیکشن کمیشن چونکہ ان مشینوں کا مخالف ہے اور اس بل سے کمیشن کے ہاتھ بڑی حد تک بندھ گئے ہیں، اس لئے ممکن ہے یہ نکتہ عدالتوں میں حکومت کے خلاف جائے۔ اگر یہ قانون سازی ریورس ہوئی تو یہی وجہ بنے گی۔

اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کے حق کے بل کی مخالفت کی گئی مگر مزے کی بات ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس کی حامی رہی ہیں۔ ماضی میں ن لیگ خود یہ بات کہتی رہی، پیپلزپارٹی کا بھی ماضی کا موقف یہی رہا ہے۔ آج ان سب نے ڈٹ کر اس بل کی مخالفت کی۔

اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کی جس انداز میں اپوزیشن نے مزاحمت کی اور خلاف بولے اس سے یقینی طور پر اوورسیز پاکستانیوں کے حلقے میں اپوزیشن کو سیاسی دھچکا پہنچا ہوگا۔

ن لیگ سے زیادہ مخالفت بلاول بھٹو نے کی۔ تحریک انصاف کے منشور کا یہ اہم حصہ تھا، انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اوورسیز پاکستانیوں کی نظر میں عمران خان سرخرو ہوئے۔ یہ ان کی اہم کامیابی ہے۔

میری ذاتی رائے میں بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جس کسی کے پاس پاکستان کی شہریت ہے، وہ ووٹ ڈال سکتا ہے۔

بیرون ملک پاکستانیوں سے رابطے کا بہت بار موقعہ ملا، میں نے ہمیشہ انہیں پاکستان کے حوالے سے دردمند اور بہت مخلص پایا۔ انہیں ان کے آبائی علاقوں میں ووٹ ڈالنے کا حق ملنا اچھا فیصلہ ہے۔

دنیا کے بے شمار ممالک میں ایسا ہوتا ہے اور اس کی فطری، منطقی وجوہات ہیں۔ اس طریقے سے اپنے بیرون ملک شہریوں کا ملک میں سٹیک پیدا کیا جاتا ہے، ان کی انوالمنٹ بڑھائی جاتی اور ان کے ساتھ اعتماد، محبت کا رشتہ مضبوط بنایا جاتا ہے۔

اگر امریکہ، یورپ، عرب ممالک میں رہنے والے اپنے آبائی شہروں میں ووٹ ڈالیں گے تو ان کا آبائی علاقوں سے تعلق بڑھے گا، رابطہ میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کی نئی نسلوں کا بھی آبائی وطن سے تعلق جڑے گا۔ اس بل کی مخالف بے جااور غیر ضروری تھی۔ بہتر ہوتا کہ اتفاق رائے سے اسے منظور کیا جاتا۔

کلبھوشن یادو کو اپیل کا حق ملنے کے فیصلے پر تنقید تو نہایت نامناسب، غلط اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ اسے کلبھوشن یادو کو این آر او دینے والی بات کہنا تو سراسر شرانگیزی اور جھوٹ ہے۔ سچ یہ ہیکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت یہ کیا گیا اور کوئی بھی حکومت ہوتی، وہ ایسا ہی کرتی۔

پاکستان اگر یہ نہ کرتا تو توہین عدالت کا مرتکب ہوتا اور پنجابی محاورے کے مطابق نواں کٹٓا کھل جاتا۔ ن لیگ ہوتی، پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف، ہر کسی نے یہ بل منظور کرنا ہی تھا۔

دوسری بات یہ کہ کلبھوشن یادو کا مسئلہ سیاسی یا حکومت ہے ہی نہیں، یہ قومی سلامتی اداروں کا ایشو ہے، وہی اس حساس مسئلے کو ڈیل کرتے آئیہیں اور یہ بل بھی ان کی منظوری کے بغیر نہیں پیش کیا گیا ہوگا۔

نیشنل سکیورٹی اداروں پر کوئی اور تنقید تو کی جا سکتی ہے، مگر حب الوطنی یاقومی سلامتی کے حوالے سے کوئی رائے زنی کرنا ناانصافی ہوگی۔

گورنر سٹیٹ بینک کو غیر معمولی اختیار دینا چونکہ آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ کا حصہ لگ رہا ہے، اس لئے یہ غلط ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اور اتنی عجلت میں تو قطعی نہیں۔

اس لئے بھی کہ اس وقت گورنر سٹیٹ بینک ایک ایسے شخص ہیں جن کو بعض حوالوں سے مشکوک سمجھا جا رہا ہے اور عوامی سیاسی حلقے انہیں آئی ایف ایم کا ایجنٹ گردانتے ہیں۔

اگر حالات نارمل ہوتے تو شائد اس بل کے بارے میں رائے مختلف ہوتی کہ حکومتیں اتنی زیادہ گڑبڑ کرتی ہیں کہ ریگولیٹری اداروں کو طاقتور اورخود مختار ہونا چاہیے۔ سٹیٹ بینک اگر بااختیار اور مضبوط ہو تو وہ حکومتی اثرورسوخ سے بچ سکتا ہے۔

گورنر کو آئینی طور پر جج جیسا استحقاق اسی لئے دیا جاتا ہے کہ وہ کسی خوف سے بے نیاز ہو کر اپنے فرائض انجام دے اور حکومتوں کے دباؤ کی پروا نہ کرے۔ اس ادارے کو طاقتور بنانا بھی اسی زمرے میں آتا ہے، مگر جیسا کہ اوپر ذکر آیا، آئی ایم ایف کے نامزد کردہ شخص اور اس بل کے پس پردہ ان کے دباؤ کی وجہ سے یہ متنازع بنا۔

کئی بلوں کی تو ابھی تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا ترمیم ہوئی، اکادمی ادبیات کے بل میں ترمیم ہوئی، نجکاری کمیشن کے قوانین بدلے گئے ہیں، پورٹ قاسم اور گوادر پورٹ ترمیمی بل ہے، بہت سے اور بل بھی آئے ہیں۔

ان میں سے ریپ کرنے والے کو نامرد بنانے کا بل ہے۔ اس پر پہلے خاصی بحث ہوچکی ہے۔ ہمارے خیال میں کوئی حرج نہیں، ریپ کی سزا اس سے بھی زیادہ سخت اور خوفناک بنائی جا سکتی ہے۔ البتہ اس پر شرعی اعتراضات ہیں تو اسے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کرنا چاہیے۔

گھریلو تشدد کے حوالے سے بل بھی اسی ہنگامے میں منظور کرلیا گیا ہے۔ گھریلو تشدد کی کون حمایت کر سکتا ہے؟ اس بل پر ماہرین نے بعض تکنیکی اعتراضات کئے ہیں کہ یہ این جی اوز کا ڈکٹیٹ کردہ ہے اور اس سے ہمارا سماجی فیبرک ادھڑے گا۔ اس پر غور کرنا چاہیے۔ عدالت میں اسے بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

ایک اچھا قانون نجی سود پر مکمل پابندی کا ہے۔ اس کے لئے طویل عرصہ سے جدوجہد ہورہی تھی۔ اس سے سود خوروں کا خاتمہ ہوگا اور خلق خدا آزاد ہوگی۔

اس قانون سازی کا ایک سیاسی تاثر ہے، حکومت سردست جیت گئی ہے مگر جس طرح اپوزیشن کو ہزیمت اٹھانا پڑی وہ انہیں مزید جارحانہ سیاست کرنیپر اکسائے گی۔ سینٹ میں اپوزیشن کو آج بھی اکثریت حاصل ہے، ممکن ہے ادھر چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے یا قومی اسمبلی میں محاذ کھولا جائے۔

ممکن ہے اس قانون سازی سے مولانا کے لانگ مارچ آئیڈیا کو تقویت ملے کہ اسمبلیوں سے تبدیلی ممکن نہیں تو عوامی دباؤ بڑھایا جائے۔ یہ اس قانون سازی کے آفٹر شاکس ہوسکتے ہیں۔

قوی امکان ہے کہ اگلا معرکہ عدالتوں میں لڑا جائے۔ ایک سازشی تھیوری یہ بھی چل رہی ہے کہ نادیدہ قوتوں نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مطمئن کرنے کیلئے یہ سوچا کہ اسمبلیوں میں حکومت کو جیتنے دیں جبکہ عدالتوں میں یہ قوانین تکنیکی وجوہات کی بنا پر رد ہو ہی جائیں گی، تو اپوزیشن بھی خوش ہوجائیگی۔

اس سازشی تھیوری پر کوئی تبصرہ نہیں کہ ہم نے پچھلے تین برسوں میں ان گنت سازشی تھیوریوں کو نمودار ہوتے اور پھر اپنی موت مرتے دیکھ لیا ہے۔

Related Posts