گوادر: مولانا ہدایت الرحمن کو ڈرامائی کامیابی کیسے ملی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوادر: مولانا ہدایت الرحمن کو ڈرامائی کامیابی کیسے ملی؟
گوادر: مولانا ہدایت الرحمن کو ڈرامائی کامیابی کیسے ملی؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور منفرد واقعہ ہے۔ کئی اعتبار سے گیم چینجر۔ جماعت اسلامی اس صوبے کی کمزور اور غیر اہم جماعت تصور کی جاتی ہے۔ صوبے کی پشتون بیلٹ میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علما اسلام کی ہمیشہ سے پاور پاکٹس رہی ہیں، وہ ژوب، پشین، لورالائی، قلعہ سیف اللہ جیسے اہم اضلاع سے نشستیں لیتے رہے ہیں، صوبائی حکومتوں میں جے یوآئی کئی بار شامل رہی۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کا بلوچستان میں اثرونفوذ کبھی قائم نہیں ہوسکا۔

بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ سے لیفٹ کی سیاست کے تڑکے کے ساتھ بلوچ قوم پر ست خیالات کا غلبہ رہا۔ بلوچستان سٹوڈنٹ فیڈریشن (BSO)کے مختلف دھڑے بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں اپنا گہرا اثررکھتے ہیں اور ایک طرح سے ان کی مناپلی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جس نے پنجاب، کے پی اور ایک زمانے میں کراچی میں بڑی مضبوط پوزیشن بنائی، مختلف وجوہات کی بنا پر یہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں سرائیت نہیں کر سکی۔

اب اسی جماعت اسلامی کے اہم صوبائی رہنما نے گوادر میں پہلے اکتیس روز کا طویل دھرنا دے کر اور غیر معمولی بڑ ے اجتماعات منعقد کر کے صوبائی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ گوادر کے دھرنے اور احتجاج سے ملک گیر سطح پر شہرت پانے والے مولانا ہدایت الرحمن جماعت اسلامی کے صوبائی سیکرٹری جنرل اور ماضی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنما رہے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمن کی کامیابی کو رائیٹ، لیفٹ دونوں حلقے انہماک، دلچسپی اور کسی حد تک شک اور تفکر سے دیکھ رہے ہیں۔جمعیت علما اسلام کے اندر یہ بات چل رہی ہے کہ کہیں اس سے صوبے میں جماعت اسلامی کو بریک تھرو نہ مل جائے اور صوبے کی واحد مذہبی سیاسی قوت ہونے کاعَلم ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔

قوم پرست جماعتیں مولانا ہدایت الرحمن کی جماعت اسلامی سے وابستگی کو شک کی نظر سے دیکھ رہی ہیں، انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ کہیں مقتدر قوتیں مولانا کی خفیہ طور پر پشت پناہی تو نہیں کر رہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا کی ”بلوچستان کو حق دو“ تحریک کو اتنی زبردست عوامی پزیرائی ملی کہ صوبے کی کوئی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر اس پر تنقید کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہر ایک نے خوش دلی سے بادل نخواستہ اس کی حمایت ہی کی۔

مولانا ہدایت الرحمن کی پزیرائی اور کامیابی کی تین چار بڑی وجوہات ہیں۔ وہ اسی علاقے کے ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد اور دادا بھی ماہی گیر رہے۔گوادر کے قریب واقع سربند کے علاقہ سے ان کا تعلق ہے۔ ماہی گیر خاندان سے تعلق کی وجہ سے وہ گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ان کا امیج بہت اچھا اور شفاف ہے۔ کسی بھی قسم کا دھبہ دامن پر نہیں، مقامی سطح پر لوگ انہیں جانتے، پہچانتے ہیں۔ بڑے دبنگ انداز میں انہوں نے مقامی مسائل کو بیان کیا ہے اور کسی مصلحت سے نہیں لڑکھڑائے۔

ان کی پوری سیاسی زندگی جماعت اسلامی کے ساتھ گزری ہے، مگر انہوں نے اس بار جماعتی عصبیت اور وابستگی سے اوپر اٹھ کر مختلف مقامی دھڑوں، گروپوں اور افراد کو ساتھ ملایا اور غیر متنازع پلیٹ فارم سے یہ تمام مظاہرے، دھرنے، احتجاج کیا۔ ان کا لب ولہجہ کہیں کہیں تلخ ہو جاتا رہا، مگر شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

حکومت پر سخت تنقید کی، اسٹیبلشمنٹ پر بھی نکتہ چینی کی،مگربعض اپوزیشن لیڈروں کی طرح وزیراعظم اور وفاقی حکومت پر ناشائستہ حملے نہیں کئے، یہودی ایجنٹ وغیرہ نہیں کہا۔ اس کا ایک فائدہ ہوا کہ وفاقی حکومت نے بھی ان کی تنقید کو سنجیدگی سے لیا اور مطالبات پر کھلے دل سے غور کیا۔

اس دھرنے میں مختلف سیاسی قوتیں شریک ہوئیں، بلوچ قوم پرست نوجوان بھی شامل ہوئے، قوم پرست جماعتوں کی قیادت نے تو شرکت سے گریز کیا، مگر مقامی سطح پر ان کے کارکن شریک ہوتے رہے۔اس کے باوجود یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کسی قوم پرست سیاستدان نے اس علاقے میں اتنے بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک نہیں کیا تھا، یہ کام مولانا نے کیا۔

ان کا اصل کریڈٹ یہ ہے کہ مقامی آبادی اور عوام کو متحرک کیا۔ ان کے دھرنے اور اجتماعات میں عام آدمی بڑی تعداد میں شامل ہوا، مقامی خواتین کی خاصی بڑی تعداد بھی آتی رہی۔ یہ مولانا ہدایت الرحمن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ سیاسی تنظیم اور کمیٹیڈ کارکنوں کی مدد سے احتجاج کامیاب بنایا جا سکتا ہے، لیکن اگر عوام والہانہ انداز میں شامل ہوں تب احتجاج کا رنگ ہی اور ہوجاتا ہے۔ ایسے مظاہروں کو کچلنا ممکن نہیں رہتا۔

لاہور میں بیٹھ کر گوادر میں ہونے والے اتنے بڑے واقعہ کا تجزیہ کرنا آسان نہیں، تاہم کوئٹہ کے صحافی حلقوں اور مکران کے باخبر اخبارنویسوں سے تفصیلی ڈسکشن کے بعد اندازہ ہوا کہ مولانا ہدایت الرحمن اب مکران کی طاقتور شخصیت بن کر ابھر رہے ہیں۔

لوگوں کا ان پر اعتماد بنا ہے اور گوادر میں ان کے احتجاج کی کامیابی کے بعد دیگر شہروں اور علاقوں سے انہیں مدعو کیا جا رہا ہے کہ ہمارے مقامی مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے یہاں آئیں۔ مولانا نے اپنے کارڈز سلیقے سے کھیلے تو وہ اپنے لئے خاصی سپیس پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے گوادر میں ہونے والے معاہدہ پر عمل ہو اور مقامی لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے، تب ہی مولانا کا احتجاج اور دھرنا ثمربار ہوسکے گا۔

مولانا کی کامیابی دراصل مقامی سطح پر قوم پرست جماعتوں اور مقامی ارکان اسمبلی کی ناکامی ہے۔ گوادر کے ایم پی اے حمل کلمتی اس پورے احتجاج سے لاتعلق رہے اور نتیجے میں دھرنے کے سٹیج سے ان پر شدید عوامی تنقید ہوتی رہی۔ بلوچ قوم پرست جماعتوں کے باہمی اختلافات اور کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہ ہونے سے بھی عوامی سطح پر انہیں نقصان ہوا۔ مولانا ہدایت الرحمن نے دراصل اس سیاسی خلا کو پر کیا جو قوم پرست سیاسی جماعتوں کی ناکامی سے پیدا ہوا تھا۔

یہ جماعت اسلامی کے اندر مقامی ایشوز کو بھرپور انداز میں اٹھانے کے نئے ٹرینڈ کی نشاندہی بھی کر رہا ہے۔ پہلے کراچی میں حافظ نعیم نے ایسا کیا،کے پی میں بھی اکا دکا جگہ پر ایسا کیا گیا، گوادر میں مولانا نے اپنے انداز میں اسے اپنایا۔ جماعت اسلامی کے اندر یہ نیا اور سیاسی اعتبار سے اچھا رجحان ہے۔
ایک بڑا فیکٹر یہ بھی رہا کہ مولانا کا تعلق ایک وفاقی جماعت سے ہے،جس نے ہمیشہ وفاق کی سیاست کی، اس پر کوئی ریاست مخالف یا علیحدگی پسند ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا۔

مولانا نے بھی ٹو دی پوائنٹ باتیں کہیں، ریاست یا وفاق کو گالی دینے کے بجائے اپنی محرومی اور مسائل کی بات کی۔ شکایات دور کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایک آدھ بیان میں سی پیک پر سخت لہجہ رکھا، پھر اسے نہیں دہرایا اور اپنے بعد کے بیانات میں چین کو بطور دوست ملک سراہا اور کہا کہ سی پیک کے ثمرات مقامی آبادی کو ملنے چاہئیں۔ ان کی یہ حکمت عملی درست رہی۔

مولانا نے مقامی شراب خانوں کی بندش کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ وہ بات ہے جو لبرل قوم پرست انٹیلی جنشیا یا جماعتوں کا نعرہ نہیں۔ یہ خاص جماعت اسلامی سٹائل کی بات ہے۔ بی بی سی اورسوشل میڈیا پر بعض حلقوں نے اسے متنازع بنانے کی کوشش کی، مگر مولانا نے اسے عمدگی سے ہینڈل کیا۔ انہوں نے اصولی نکات پر بات کی اور کہا کہ دس لاکھ بلوچ نوجوان منشیات کا شکار ہو رہا ہے، یہ بڑا المیہ ہے، اس لئے ہر قسم کے نشے کو بند ہونا چاہیے۔ یہ وہ بات ہے جس کی سپورٹ مقامی سطح پر ہر خاندان اور والدین نے کی۔ کون چاہتا ہے کہ اس کے بچے نشے میں دھت پڑے رہیں؟

میں نے کوئٹہ کے ایک سینئر صحافی سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں مولانا ہدایت الرحمن کوکیا سیاسی فائدہ پہنچا ہے۔ جواب تھا کہ اگر مولانا جماعت اسلامی کے بجائے آزاد کھڑے ہوں یا”بلوچستان کو حق دو“ کے نام پر الیکشن لڑیں تو آسانی سے ایم پی اے بن جائیں گے بلکہ یوں لگ رہا ہے کہ بعض دیگر علاقوں سے انہوں نے اسی طرز پر احتجاج کر کے مقامی مسائل حل کرائے تو نشستیں بڑھ جائیں گی۔

خیر سیاست اپنی جگہ، مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ وفاق اور ریاستی اداروں نے مقامی سطح پر اس احتجاج کو برداشت کیا اور ان کے مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کیا۔ گوادر اور دیگر بلوچ علاقوں کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔ وہاں محرومی کی شدت بہت زیادہ ہے اور بعض سامنے کی باتیں بھی نہیں مانی جاتیں۔ ماہی گیروں کی شکایات دور ہوں، پانی، بجلی کے مسئلے حل ہوجائیں، تعلیم، صحت کی سہولتیں ہوں، خوشحالی آئے تو اس خطے میں کوئی علیحدگی پسند گروہ نوجوانوں کو نہیں بھڑکا سکتا۔ ریاست ماں کا کردار نبھائے تو اولاد اس سے لپٹی رہے گی، کبھی ناخوش ہونے کا نہیں سوچے گی۔

Related Posts