نواز شریف پھر وزیر اعظم بننے کیلئے تیار، عمران خان کو ہٹانے کا فارمولا کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نواز شریف پھر وزیر اعظم بننے کیلئے تیار، عمران خان کو ہٹانے کا فارمولا کیا ہے؟
نواز شریف پھر وزیر اعظم بننے کیلئے تیار، عمران خان کو ہٹانے کا فارمولا کیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جمعہ کی شام ٹی وی چینلز کی سکرین پر وزیراعظم عمران خان سے منسوب چند جملے جگمگانے لگے ،بتایا گیا کہ وزیراعظم نے اپنی پارٹی کے اعلیٰ اجلاس میں یہ باتیں کہی ہیں۔کئی چینلز نے اجلاس کی اندرونی کہانی کے طور پر یہ باتیں بیان کیں، اس کے لئے کسی راوی یا بیان کرنے والے شخص کا حوالہ دینے کے بجائے ”ذرائع “کا لفظ استعمال کیا گیا۔

عمران خان سے منسوب یہ گفتگو دلچسپ اور قابل غور ہے۔ بتایا گیا کہ وزیراعظم نے اس پر سخت ناخوشی کا اظہار کیا کہ بعض حلقے میاں نواز شریف کی نااہلی ختم کرانے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ عمران خان کے مطابق یہ سخت غیر اخلاقی ہے کیونکہ سابق وزیراعظم کو کرپشن کی بنیاد پرتاحیات نااہلی کی سزا سنائی گئی تھی ۔اجلاس کی اندرونی کہانی میں یہ بتایا گیا کہ وزیراعظم نے اپنے وزرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کی کرپشن سکینڈلز کو عوام کے سامنے واضح کریں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو یہ باتیں کرنے کی آخر ضرورت کیا پیش آئی؟ اس کے لئے ہمیں ان مبینہ فارمولوں کے بارے میں جاننا پڑے گا جو آج کل افواہوں کی بلیک مارکیٹ میں گرما گرم سموسوں کی طرح بک رہے ہیں۔آپ چاہیں تو فارمولے کی جگہ سازشی تھیوریز کی اصطلاح استعمال کر سکتے ہیں ۔

تین مختلف پلان ہیں جو تین فریق الگ الگ سوچ کر ان پر عمل درآمد کرنے کی ٹھان کر بیٹھے ہیں۔

پہلامبینہ پلان یا فارمولا مسلم لیگ ن سے متعلق ہے۔ جو تھیوری اس بارے میں بیان کی جاتی ہے، ا سکے مطابق مسلم لیگ ن کو اگلے الیکشن میں کھلا میدان دیا جائے گا اور انہیں روکنے یا ان کے مقابلے میں کسی جماعت (خاص کر تحریک انصاف)کی حمایت کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ براہ کرم یہ نہ پوچھئے گا کہ کھلا میدان دینے اور کسی جماعت کو فیور نہ کرنے کی بات کن کے بارے میں کی جا رہی ہے۔ بھئی وہی جن کے بارے میں ہم مقتدر قوتوں جیسا گول مول لفظ لکھا کرتے ہیں۔

اس پلان کے مطابق میاں شہباز شریف کو کچھ سپیس دی جائے گی، وہ اپنی پارٹی کو منظم کریں اور اپنے مخصوص انداز میں پنجاب میں الیکشن جیت کر دکھائیں۔ وہ اگر اچھا پرفارم کریں گے تو پنجاب ان کا ہوگا اور وفاق میں بھی حکومت یا بڑا شیئر ملے گا۔ ہم آپ بلکہ سب جانتے ہی ہیں کہ میاں شہباز شریف مقتدر قوتوں سے مفاہمت کے حامی ہیں، وہ کبھی سخت موقف اختیار نہیں کرتے اور اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں، بطور ایک عملیت پسند سیاستدان شہباز شریف جانتے ہیں کہ اسٹیلشمنٹ سے ٹکرا نے کے بعد اقتدار کا حصول ممکن نہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے بیشتر الیکٹ ایبلز اور پوٹینشل ارکان اسمبلی اس مفاہمانہ پالیسی کے حامی ہیں کہ اس راستے سے انہیں اقتدار صاف نظر آ رہا ہے۔ ان کی البتہ مجبوری یہ ہے کہ وہ اعلانیہ ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کی کامیابی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے بغیر ممکن نہیں اور پارٹی ٹکٹ کے ساتھ پارٹی کا ووٹ بینک شہباز شریف نہیں بلکہ میاں نواز شریف کی حمایت سے مشروط ہے۔

اس فارمولے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ میاں نواز شریف ہیں۔ وہ ریٹائر ہوجانے یا کارنر ہو کر اگلے چند سال بیٹھے رہنے کے حق میں نہیں۔ میاں نوازشریف کا کہنا ہے کہ پہلے تو مجھے پھر سےRelevent اور اہم بنایا جائے ۔ یعنی میری تاحیات نااہلی والا معاملہ ختم ہو اور فعال سیاست کرسکوں ، دوسرا مستقبل کے حوالے سے کئی اہم ریاستی فیصلے ہونے ہیں یا کرنے پڑیں گے،وہ مجھے ہی کرنے دئیے جائیں۔ ورنہ جو جیسا چلتا ہے چلا لیں۔

میاں نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے پوزیشن یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے انہیں تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ عدالتی اور قانونی روایت کے مطابق اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی جا سکتی تھی، وہ تب ہی کر دی گئی تھی ، نظرثانی کی اپیل بھی مسترد ہوگئی۔ دوسرے الفاظ میں بظاہر قانونی اور عدالتی روایات کے مطابق میاں نواز شریف کا معاملہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوچکا ہے۔ اسے بدلنے کی کوشش کی گئی تو بہت کچھ اوپرنیچے کرنا پڑے گا اور شائد کسی حد تک ماورائے آئین بھی جانا پڑے۔

وکلا کا ایک حلقہ یہ کہتا ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس کسی اور زاویے سے جائے اور پچھلے بنچ سے بڑا بنچ یعنی کم از کم سات رکنی بنچ اسے سنے اور اور اگر وہ پچھلے فیصلے کو ختم کر کے نیا فیصلہ میاں نواز شریف کے حق میں سنائے ، تب وہ اہل ہوسکتے ہیں۔

اگر ایسا کیا گیا تو پھر قیاس ہے کہ کوئی بڑی وکلا تنظیم اس ایشو کو سپریم کورٹ لے کر جائے، سپریم کورٹ بار یا کوئی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن۔ویسے سپریم کورٹ بار کے نومنتخب صدر احسن بھون یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ تاحیات نااہلی کی آئینی شق 621F کے خاتمے کے لئے سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ اگر اس شق کو ختم کر دے تو خود بخود نواز شریف اور جہانگیر ترین وغیرہ کو ریلیف مل جائے گا۔

اس فارمولے کی سازشی تھیوری کو چلانے والے یہ بتاتے ہیں کہ بڑے میاں صاحب کو یہ باتیں سمجھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ باقاعدہ قسم کی ٹیڑھی کھیر ہے ،اس کے بجائے مریم نواز شریف کی بات کی جائے،کیونکہ ان کی سزا ختم ہونے کے امکانات قوی ہیں۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل کیا تھا اور ان کے خلاف کیس احتساب عدالت میں چلایا گیا ، جہاں انہیں سزا سنائی گئی۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، سیاست سے تاحیات نااہلی، جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے انہیں پارٹی سربراہ کے عہدے سے بھی روک دیا تھا، جبکہ احتساب عدالت سے قیداور جرمانے کی سزا الگ معاملہ ہے۔

سپریم کورٹ اگر کسی کیس میں فیصلہ سنا دے اور پھر اس پر نظر ثانی اپیل کو بھی رد کر دے تو یوں سمجھ لیں کہ اس شخص کے لئے آئندہ کے تمام راستے اور دروازے بند ہوگئے ۔اس کے برعکس احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے، عدالت اس سزا کو قائم بھی رکھ سکتی ہے اور اسے ختم بھی کر سکتی ہے۔البتہ دونوں صورتوں میں اس پر اپیل سپریم کورٹ میں ہوسکتی ہے۔

مریم نواز کے خلاف صرف احتساب عدالت کا فیصلہ ہے، جس پر اپیل ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے، اگر وہاں سے احتساب عدالت کا فیصلہ رد ہوجائے تو مریم بی بی آزاد اور ریلیکس ہوسکتی ہیں۔ اس وقت جو قانونی پوزیشن ہے، اس کے مطابق مریم نواز کو سات سال کے لئے سیاست میں حصہ لینے کی پابندی ہے، یہ فیصلہ 2017 میں آیا تھا، یعنی وہ 2024تک نااہل رہیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ الیکشن خواہ وہ اگلے سال ہوں یامدت پوری کرنے کے بعد 2023کے وسط میں ہوں، اس میں مریم نواز حصہ نہیں لے سکتیں۔

اس تھیوری کے مطابق میاں نواز شریف مریم بی بی کو کلین چٹ ملنے کی بات سے مطمئن نہیں ہوتے ، ان کا اصرار ہے کہ ان پر جو دھبہ لگا ہے، وہ مٹنا چاہیے، اس کا کوئی طریقہ سوچیں یا ڈھونڈیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ممکن ہے میاں نواز شریف یہ سوچتے ہوں کہ وہ نااہل رہیں اور مریم بی بی اہل ہوجائے تو پھر خاندان میں باقاعدہ سیاسی جنگ چھڑ جائے گی،شہباز شریف بمقابلہ مریم نواز کی صورت میں۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر مقتدر قوتوں یا اسٹیبلشمنٹ کو بیرون ملک بیٹھے میاں نواز شریف سے مذاکرات کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

اس کے ایک سے زائد جواب دئیے جاتے ہیں۔ ن لیگی حلقے یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے ملک کا جو بیڑا غرق کیا ہے، اس سے خان کی حامی طاقتور لابی کو شدید مایوسی ہوئی ۔ مقتدر قوتوں میں یہ احساس گہرا ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف سے حکومت نہیں چلائی جا رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں تباہی آ رہی ہے۔ جو چند ایک شعبے بہتر ہوئے ہیں جیسے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ وغیرہ ، ان کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ یہ سوچتی ہے کہ ایسا حکومتی پالیسی کے پیش نظر نہیں ہوا بلکہ کورونا کے بعد کے حالات نے یہ فائدہ پہنچایا ۔

ایک حلقہ یہ کہتا ہے کہ عمران خان نے نہ صرف اپنی کارکردگی سے مایوس کیا ہے بلکہ وہ ایک ضدی، خودسر، عاقبت نااندیش اور غیر ضروری ایڈونچرلینے کے خواہاں شخص کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں۔ ایسا شخص جو بلاضرورت کوئی بڑا پنگا لے سکتا اور ملک کو بڑے بحران سے دوچار کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہیں یہ بھی سوچا جا رہا ہو کہ جو غلطی ننانوے میں نواز شریف نے کی تھی ، اسے خان دہرانے کی بے وقوفی نہ کر ڈالے ۔

ایک اوروجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کبھی کسی کو دوسرا الیکشن نہیں دیتی ۔ پہلے چانس میں وہ کچھ کر سکتا ہے تو کر لے، ورنہ ایک ناکامی کے بعد اسے دوسری فتح کی پیش کش نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے ایوب خان کی مثال دی جاتی ہے، بھٹو صاحب اور پھر خاص طور سے جنرل مشرف کا حوالہ دیا جاتا ہے جو 2007ءمیں بہت مضبوط پوزیشن میں تھے، چند ماہ میں ایسی صورتحال بنی کہ ان کے ہاتھ سے چیزیں پھسلتی رہیں اور پھر انہیں ایوان اقتدار سے خوار ہو کر نکلنا پڑا۔ اس حلقے کے مطابق عمران خان کو بھی دوسرا الیکشن نہیں مل سکتا۔ اب کی بار لیول پلینگ فیلڈ ملنا لازم ہے، سب کے لئے اوپن ہوگا، اپنے زور پر خان صاحب جو کر سکتے ہیں کر لیں،کوئی ہاتھ بٹانے نہیں آئے گا۔

یہ ہے وہ پہلا فارمولا یا تھیوری جو عمران خان حکومت کے خاتمے کے حوالے سے افواہوں کی مارکیٹ میں زیرگردش ہے۔ یہاں یہ یاد رکھیں کہ یہ سب فارمولے، تھیوریز مبینہ ہیں یعنی مصدقہ نہیں بلکہ افواہوں کا حصہ ہیں۔اس لئے بہت زیادہ  سنجیدہ لینے کے بجائے انہیں مزے سے پڑھیں، سنیں اور بے شک اس پر گپ لگائیں۔

اس بارے میں دوسرااور تیسرا فارمولا بھی زیرگردش ہے، تاہم وہ فارمولا کیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کے دیگر کیا طریقے ہوسکتے ہیں؟ اس پر اپنے اگلے مضمون میں بات کریں گے ، ان شااللہ۔

Related Posts