بیرونی سازش اور اقتدار کا کھیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گزشتہ ماہ تحریکِ انصاف کی حکومت کا تختہ تحریکِ عدم اعتماد لا کر الٹ دیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو ہٹانے کیلئے ملک کے باہر سے سازش ہوئی جبکہ دھمکی آمیز خط میں تحریکِ عدم اعتماد کا ذکر موجود ہے۔

حال ہی میں سمندر پار پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں جولائی میں سمجھ گیا تھا کہ کچھ ہورہا ہے۔ امریکی سفارت خانے میں اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا تھا۔

خطاب کے دوران سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے منحرف اراکین سے ملاقاتوں کا آغاز کیا گیا۔ ڈونلڈ لو نے دھمکایا جو 22کروڑ پاکستانیوں کی توہین ہے۔ امریکا پھر سے اڈے مانگنے لگا۔ کہا گیا کہ عمران خان بچ گئے تو پاکستان کو نتائج بھگتنے ہوں گے۔

بعض سیاست دانوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ جھوٹ اتنا زیادہ بولو کہ سچ لگنے لگے۔ کٹل فش رات کی تاریکی میں سمندر کی گہرائی میں ہزاروں انڈے دیتی ہے جو مرغی سے زیادہ لذیذ ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ شور نہیں مچاتی، اس لیے اس کے انڈے کوئی نہیں کھاتا۔

دوسری جانب مرغی ایک انڈا دے کر شور مچا دیتی ہے۔ بازار میں نہ صرف اس کے انڈے خریدے جاتے ہیں بلکہ آج کل ایک درجن انڈوں کی قیمت بھی آسمان کو چھوتی محسوس ہوتی ہے، شاید عمران خان کے دعووں میں بھی کچھ ایسی ہی بات ہے۔

دھمکی آمیز خط ہو، بیرونی سازش، اپوزیشن کو غدار کہنا یا دیگر سنگین الزاماتِ، حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے مذاق اڑائے جانے اور سخت بیانات کے باوجود پی ٹی آئی کے رہنما اپنے دعووں سے کسی بھی مقام پر پیچھے ہٹتے نظر نہیں آئے۔

تاہم جس بھونڈے انداز میں تحریکِ انصاف حکومت نے تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی کوشش کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ عمران خان ملک کے وہ واحد وزیر اعظم ہیں جنہیں جمہوری طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔

پہلے پہل سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے رولنگ دے کر تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کیا۔ پھر فوری طور پر وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا اور فرمایا کہ میں نے اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھیج دی ہے۔

اس موقعے پر ایک کرمفرما نے سوال کیا کہ اگر صدرِ مملکت نے وزیر اعظم عمران خان کی تجویز قبول نہ کی، پھر کیا ہوگا؟ راقم الحروف نے عرض کی صدرِ مملکت ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ پی ٹی آئی دور میں دستخط کیے گئے متعدد صدارتی آرڈیننس اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔

جیسا کہ میں نے کہا تھا، کچھ ہی دیر کے بعد صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کردی اور اسی روز سپریم کورٹ نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔ کچھ روز تک سماعت ہوئی اور پھر تاریخ کا ایسا بڑا فیصلہ سامنے آیا کہ ہم حیران رہ گئے۔

پی ٹی آئی کے وزراء فرما رہے تھے کہ سپریم کورٹ کو اسپیکر کی رولنگ پر فیصلہ دینے کا اختیار نہیں کیونکہ اسمبلی کی کارروائی کو آئینی اعتبار سے کہیں بھی چیلنج نہیں کیاجاسکتا، تاہم چیف جسٹس کی سربراہی میں ججز بینچ نے یہ کردکھایا۔

قومی اسمبلی بحال کردی گئی۔ وزیر اعظم دوبارہ اقتدار کی مسند پر متمکن ہوئے اور تحریکِ عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ یہاں ہمیں امید تھی کہ پی ٹی آئی کی جانب سے بھرپور مزاحمت کی جائے گی کیونکہ عمران خان تو فرما رہے تھے کہ میں آخری گیند تک کھیلوں گا۔

آخری گیند تک کھیلنا تو دور کی بات، عمران خان نے تو راتوں رات وزیر اعظم ہاؤس بھی چھوڑ دیا۔ پھر شہباز شریف نے نئے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور پھر عمران خان نے اپوزیشن اتحاد کی حکومت کیلئے امپورٹڈ حکومت نامنظور کا نعرہ لگا دیا۔

حیرت انگیز طور پر عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں مہنگائی کے ہاتھوں پریشان حال عوام نے پی ٹی آئی کے چیئرمین سے ان کی کارکردگی کا نہیں پوچھا، بلکہ سارا زور اس بات پر دیا جارہا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کو گھر چلے جانا چاہئے کیونکہ یہ امپورٹڈ ہے اور اپوزیشن رہنما ملک کے غدار ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

یہاں میرا چھوٹا سا سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانیوں کی یادداشت اتنی کمزور کیوں ہے؟ وہ بھول کیوں گئے کہ عمران خان نے 100 روز کا وعدہ کیا، پورا نہیں کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ میں مہنگائی پر قابو پا لوں گا، نہیں پا سکے۔ کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، لیکن پی ٹی آئی گئی تھی نا آئی ایم ایف کے پاس؟ کیا آپ بھول گئے؟

آپ بھول کیوں جاتے ہیں کہ عمران خان وہی حکمران ہے جس کے دور میں عدل و انصاف کی حکمرانی اور دودھ کی نہریں بہنے کے وعدے کیے گئے تھے۔ کہا گیا تھا کہ غریب عوام کا خیال رکھا جائے گا، لیکن ہوا اس کے برعکس، امیروں کو ایمنسٹی اسکیمز دی گئیں اور غریبوں کو خالی وعدوں پر ٹرخا دیا گیا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ شہباز شریف دودھ کے دھلے ہیں اور ن لیگی حکومت کو ضرور اقتدار میں رہنا چاہئے اور مدت پوری کرنی چاہئے۔ کیسی مدت اور کہاں کا ڈیڑھ سالہ اقتدار؟ اگر عمران خان کو باری پوری نہیں کرنے دی گئی تو ن لیگ کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہئے۔

عمران خان اور اپوزیشن کے مابین اقتدار کیلئے یہ میوزیکل چیئرز کا کھیل چلتا رہے گا۔ حقائق کو سمجھنا اور ان کے مطابق فیصلہ کرنا ہمیشہ وقت کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کی بجائے اپنے حقیقی مقاصد اور چیلنجز کو سمجھے اور ان کا سامنا کرے۔ 

Related Posts