مذہب کی جبری تبدیلی کا مسئلہ اور نیا قانون، پاکستانی قوم کس طرف جا رہی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مذہب کی جبری تبدیلی کا مسئلہ اور نیا قانون، پاکستانی قوم کس طرف جا رہی ہے؟
مذہب کی جبری تبدیلی کا مسئلہ اور نیا قانون، پاکستانی قوم کس طرف جا رہی ہے؟

آج سے 2 روز قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے مذہب کی جبری تبدیلی سے متعلق وفاقی وزارتِ انسانی حقوق کے تیار کردہ بل کے مسودے میں متعدد شقوں کو شریعتِ اسلامی سے متصادم قرار دیا جبکہ مذہب کو زبردستی تبدیل کرانا وقت گزرنے کے ساتھ استھ اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے۔

وفاقی وزارتِ قانون نے مذہب کی جبری تبدیلی کے مسئلے پر نیا قانون بنانے کیلئے بل کا مسودہ ترتیب دیا تاہم اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر متعدد اعتراضات اٹھائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر قانون نہیں بنے گا تو مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ اور اگر شرعی اصول پامال کیے جائیں گے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے کا کیا مقصد باقی رہ جائے گا؟َ آئیے غور کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم کس طرف جا رہی ہے۔

مذہب کی جبری تبدیلی اور شریعت 

اسلام اور مسیحیت سمیت سمیت دنیا کا تقریباً ہر مذہب اور دین انسان کو اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب کو قبول کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اگر زبردستی اسلام یا کوئی اور مذہب کو قبول کرایا جائے تو ایمان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے جسے اسلام نے لااکراہ فی الدین سے واضح کیا۔

لا اکراہ فی الدین کا مطلب یہ ہے کہ دین میں کوئی جبر یا زور زبردستی نہیں ہے۔ جو شخص اپنی خوشی سے اور دل سے اسلام قبول کرنا چاہے، اس کیلئے شریعت کے دروازے کھلے ہیں۔ زبردستی اسلام قبول کرنے سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا جو درست نہیں۔

قانون سازی

زبردستی تبدیلئ مذہب میں ملوث ملزمان کیلئے 5 سے 10 سال قید کی سزا رواں برس  8 فروری 2021ء کو تجویز کی گئی جو جبری تبدیلئ مذہب سے متعلق سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی گئی۔

 کمیٹی نے وزارتِ انسانی حقوق و قانون کو 7 روز میں بل ڈرافٹ کرنے کی ہدایت جاری کی۔ مذہب کی تبدیلی کے معاملے میں سہولت کار کیلئے بھی 3 سے 5 سال کی سزا تجویز کی گئی۔ سکندر میندھرو کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کو شکایت ہے کہ مذہب صرف شادی کیلئے تبدیل کرایا جاتا ہے۔

وزارتِ انسانی حقوق کا مسودہ اور اعتراضات

آج سے 2 روز قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے مذہب کی جبری تبدیلی کے متعلق وزارتِ انسانی حقوق کے بل میں شریعت سے متصادم شقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے عمر کی حد اور مذہب تبدیل کرنے کے طریقۂ کار پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔

مسودے میں کہا گیا کہ 18 سال سے کم عمر شخص اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا اور بالغ شخص بھی مخصوص طریقۂ کار کا پابند ہوگا۔ دوسرے مذہب میں داخلے کیلئے عدالتی سرٹیفکیٹ، مذہبی کتب پڑھنا اور علماء سے نشست لازمی قرار دے دی گئی۔

مذہب کی تبدیلی کیلئے دی گئی درخواست موصول ہونے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج 7 روز کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ وہ شخص عدالت میں پیش ہوگا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ، دھوکہ دہی یا غلط بیانی کے باعث نہیں۔ 

بعد ازاں 90 روز بعد مذہب تبدیل ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری ہوگا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ اسلام قبول کرتے ہی شرعی احکامات نافذ ہوتے ہیں، 90 روز یا کم کی تاخیر مناسب نہیں۔ ریاست سمجھتی ہے کہ مذہب کی جبری تبدیلی پہلے ہی خلافِ قانون ہے۔

تاہم مسودۂ قانون کی تیاری سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں مذہب جبری طور پر تبدیل کرایا جاتا ہے۔ کمسن بچوں کے اسلام قبول کرنے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان میں ایسا کوئی قانون تشکیل نہیں دیا جاسکتا جو اسلامی شریعت کے منافی ہو۔

خلافِ شریعت قانون کا تجزیہ 

اسلامی جمہوریہ کہلانے والے ہمارے پیارے ملک پاکستان میں خلافِ شریعت قانون بنایا جارہا ہے۔ معروف صحافی انصار عباسی کا کہناہے کہ وفاقی حکومت کا تیار کردہ بل پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ اگر اسے قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پابندی لگ جائے گی۔

یہی نہیں، بلکہ انصار عباسی نے یہ بھی کہا کہ اگر بل کو قانون کی حیثیت حاصل ہوئی تو اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کو مجرم ٹھہرایا جائے گا۔ قانون لاگو ہونے پر 18 سال سے کم عمر افراد اسلام قبول نہیں کرسکیں گے اور بالغ افراد کو اسلام کی قبولیت میں مشکلات ہوں گی۔

Related Posts