تین رمضان المبارک کو ترکیہ کے دس روزہ دورے پر جانا ہوا۔ استنبول کے علاقے “بشک شہر” میں ہمارا قیام تھا۔ اس سفر کا تفصیلی احوال اگلی نشست میں بیان کریں گے۔
اس دوران جس چیز کو جاننے کی میں سب سے زیادہ کوشش کر رہا تھا، وہ یہ تھی کہ ترک حکومت کرد بغاوت کو ختم کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ کرد بغاوت! جانتے ہیں یہ موجودہ جدید تاریخ کی سب سے خوفناک بغاوت ہے۔ جس نے 40 ہزار انسانوں کا خراج وصول کیا ہے۔ اس راز کو جاننے کے لیے ہم روزانہ افطاری کے وقت کرد ریسٹورنٹ جاتے۔ کردوں کو عربی بھی آتی ہے۔ پہلے صلاح الدین ایوبی کی قوم کو سلام سے بات چھیڑنے کی کوشش کرتے۔ مگر یہ کوشش ناکام رہی۔ پھر اللہ کے فضل سے ڈاکٹر نذیر صاحب سے ملاقات ہوئی، جو کردوں کے علاقے دیار بکر میں طویل عرصہ رہے ہیں اور اس خوفناک بغاوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بلکہ کئی مرتبہ بال بال بچے ہیں۔ اس کے بعد مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب دامت برکاتہم سے کئی گھنٹے کی نشست ہوئی۔ ان دونوں ملاقاتوں کے بعد کرد بغاوت کی سرکوبی کے راز تک ہمیں رسائی حاصل ہوگئی۔ آیئے ذرا تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
بلوچستان میں پکنے والا لاوا اب پھٹ پڑا ہے۔ محب وطن حلقے عرصے سے چیخ رہے تھے کہ بلوچستان پر ریاست کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مگر حکومت “سب ٹھیک ہے” کی رٹ لگاتی رہی۔ مزدوروں کو بسوں سے اتار کر بے دردی سے شہید کرنے کے پے درپے واقعات کے باوجود بھی سنجیدگی سے اس مسئلے کو نہیں لیا گیا۔ یہاں تک کہ جعفر ایکسپریس کا سانحہ رونما ہوا۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کے اس سے بڑے صوبے کے حالات کس نہج تک پہنچ چکے ہیں۔ علیحدگی پسند دندناتے پھر رہے ہیں۔ بہت سے علاقوں سے حکومتی رٹ تو مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ خاکم بدہن اب علیحدگی پسند لوگوں کو یہ باور کراتے پھر رہے ہیں کہ آزاد بلوچستان کی منزل زیادہ دور نہیں ہے۔ حکومت تو اس مسئلے کے لیے صرف طاقت کے استعمال کو ہی آخری حل قرار دیتی رہی ہے۔ اب بھی یہی کچھ نظر آرہا ہے۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ لیکن میڈیا کی سطح پر اب کچھ سنجیدگی سے بحث و مباحثہ ہونے لگا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اگرچہ دیر بہت ہو چکی، لیکن بہرحال مسئلہ اب بھی لاینحل نہیں ہے۔ اس قسم کی بغاوتوں کے خاتمے کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جن میں برادر مسلم ملک انڈونیشیا میں برپا ہونے والی بغاوتوں کی مثال بھی دی جاسکتی ہے لیکن حال ہی میں اس حوالے سے ترکیہ نے جو کامیابی حاصل کی ہے، ہمیں اس کو سامنے رکھنا چاہئے۔
طالبان میں اختلافات شدت اختیار کرگئے، وزیر داخلہ سراج حقانی نے استعفیٰ دے دیا
چند روز قبل ترک حکومت کے خلاف 13 برسوں سے برسرپیکار کردستان ورکرز پارٹی نے دہشت گرد کارروائیاں ختم کرکے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا ہے۔ جس سے دنیا کی اس سب سے طویل مسلح بغاوت کے ختم ہونے کا امکان واضح ہوگیا ہے، جس نے ہزاروں افراد کو اپنے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھایا۔ کرد قوم پرست تحریک کا آغاز 1890ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے برسوں میں ہوا تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد سیورے کے معاہدے میں کردوں سے آزادی کا وعدہ کیا تھا۔ بعد میں ترک رہنما کمال اتاترک نے یہ معاہدہ توڑ دیا جب کہ 1924 کے لوزان کے معاہدے میں کردوں کے علاقوں کو مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں شامل کر دیا گیا تھا۔ ترکیہ میں کرد مجموعی آبادی کا تقریباً بیس فیصد ہیں۔
ترکیہ میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے 1984 سے جنوب مشرقی حصے کی خودمختاری کے لیے مسلح جدوجہد شروع کی تھی، جب کہ اس مسلح تنازعے میں مجموعی طور پر 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی کے بانی رہنما عبدللہ اوجلان کو 1999 میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں سزائے موت سنا دی گئی تھی، بعد میں ترکیہ میں سزائے موت پر پابندی لگ جانے کے تناظر میں ان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا تھا۔ 2012ء میں ترک صدر رجب طیب ایردوان اور کرد رہنما اوجلان کے درمیان مذاکرات ہوئے، تاہم ان مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے یہ تنازعہ دوبارہ شدت پکڑ گیا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ترکیہ کے علاوہ امریکا اور یورپی یونین بھی کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اس تنظیم کے ارکان کے خلاف ترکیہ نہ صرف ملک کے اندر عسکری کارروائیاں کرتا رہا ہے بلکہ شمالی عراق کے پہاڑی علاقوں میں بھی ترک طیارے بمباری کرتے رہے ہیں۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں متحرک وائی پی جی نامی کرد عسکری گروہ کردستان ورکرز پارٹی ہی کی شاخ ہے اور اس تنظیم کو کم زور کرنے کے لیے ترکیہ نے شمالی شام میں بھی اپنی فوج بھیجی ہے۔ عراق میں کردوں کی تعداد مجموعی ملکی آبادی کا پندرہ سے بیس فیصد جب کہ ایران میں دس فیصد ہے۔ عراق میں صدام حسین کے دورِ حکومت میں کئی مرتبہ کردوں کے خلاف حملے کیے گئے بلکہ 80 کی دہائی میں تو کردوں کے دیہات پر مہلک حملے کئے گئے۔ 1991 سے شمالی عراق میں کرد اکثریتی علاقے نیم خودمختار حیثیت کے حامل ہیں۔ ایران میں کردستان ورکرز پارٹی کی ایک شاخ سمجھی جانے والی فری لائف آف کردستان کے خلاف بھی فورسز عسکری آپریشن کر چکی ہیں، جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں کردوں کو معاشرتی تفریق کا سامنا ہے۔ تاہم اب ترکیہ کے ان کرد علیحدگی پسندوں نے آزادی کی جنگ ختم کرکے، قومی دھارے میں ضم ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس بات کا اعلان کردش ورکرز پارٹی کے سربراہ عبد اللہ اوجلان کی جانب سے کیا گیا۔ اوجلان نے جماعت تحلیل کرکے اس کے عسکری جتھوں YPGاور YPJ(خواتین) کو غیر مسلح کردینے کا حکم دے دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ یہ ساری ملت اسلامیہ خاص طور سے ترکیہ، شام اور فلسطین کیلئے ایک انتہائی خوشگوار تبدیلی ہے۔
ممتاز دینی اسکالر مفتی منیر شاکر کو بم دھماکے کا نشانہ بنالیا گیا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے پاکیزہ لہو نے مراکش سے انڈونیشیا تک بیداری اور اتحاد کی جو شمع روشن کی ہے اس نے اوجلان کو قوم پرستی کے کنویں سے نکل کر ترک ملت میں ضم ہونے کی راہ دکھا دی۔ لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ ترکیہ کے حالات خاص کرکے بغاوت کی تاریخ پر نظر رکھنے والے حضرت مفتی صاحب کا فرمانا ہے کہ رجب طیب ایردوان نے تین بنیادی کام کیے۔ جس سے بغاوت کی اس خوفناک تحریک کا زور آہستہ آہستہ ٹوٹ گیا۔ ہمیں ٹرین کو یرغمال بنانا بہت بڑا واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن کرد باغیوں کے حملوں کی شدت اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی تھی۔ وہ پورے کے پورے گاؤں کو ایک ساتھ اڑا دیتے تھے۔ ساتھ ترک شہروں میں تباہ کن خود کش حملے بھی کرتے۔ ڈاکٹر نذیر نے بتایا کہ ایک مرتبہ کردوں نے ترکوں کی بستی کو دھماکے سے اڑا دیا۔ یہ بستی ہماری یونیورسٹی کے قریب تھی۔ اس لیے کچھ ساتھی جنازے میں شرکت کے لیے گئے۔ واپسی میں انہوں نے بتایا کہ وہاں بس چند چھیتڑوں کو جمع کرکے جنازہ پڑھا گیا۔ ڈھائی سو کے قریب افراد کی باقیات کو جمع کیا گیا تو صرف تیس کلو گوشت کی تھیلیاں بنیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس طرح کے اور کئی خوفناک واقعات سنائے۔ جس سے آپ اس بغاوت کی ہولناکی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی کرد قوم فطری طور پر ہی نہایت جفاکش اور جنگجو ہے۔ کردوں کی جانب سے علیحدگی کی تحریک ختم کرکے قومی دھارے میں ضم ہونے کا اعلان ترک صدر ایردوان کی آزمائش ہے۔ امید ہے کہ ماضی کی زیادتیوں کا گلہ کرنے کے بجائے ترک صدر گھر واپس آنے والے کرد بھایئوں کو گلے سے لگائیں گے۔ کیونکہ ایردوان کے مربی اور ترکیہ کے مردِ قلندر پروفیسر نجم الدین اربکانؒ کہا کرتے تھے کہ ہم ایک کرد صلاح الدین ایوبیؒ کا احسان کبھی نہیں بھول سکتے۔ واضح رہے فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی نے تکریت، عراق کے ایک کرد خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔
کرد بغاوت کی آگ کو بجھانے کے لیے پہلے نمبر پر حکومت نے کرد علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھا دیئے۔ انہیں ترکوں سے بھی بڑھ کر سہولیات سے نوازا۔ چنانچہ اب کردوں کے علاقے ترک علاقوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ میں نے کرد شہروں کے علاوہ دیہات میں بھی جا کر خود اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ سڑکوں، اسکول، اسپتال، بنیادی اسٹرکچر کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہے۔ اس کے ساتھ سرکش عناصر کے خلاف فوجی آپریشن بھی پوری طاقت کے ساتھ ہوتا رہا۔ تیسرا آپشن، اندرون خانہ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ صدر رجب طیب ایردوان نے ترکیہ کے کردوں کو باور کرایا کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسی لیے انہوں نے “صفوں کو مضبوط کرنے اور اندرونی محاذ کو مستحکم کرنے” کی دعوت دینا شروع کی۔ اس دعوت کا مقصد یہ تھا کہ ترک کردوں کا رابطہ شمالی شام میں PKK اور دیگر گروپوں سے ختم کیا جائے، تاکہ یہ ترکیہ میں موجود کردوں پر اثر انداز نہ ہوں۔ اس میں کامیابی تب ملی جب قوم پرست جماعت کے رہنما، حکومتی حلیف اور سابقہ “مذاکراتی عمل” کے سب سے بڑے مخالف دولت بہچلی نے اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا اور ایک غیر متوقع بیان جاری کیا۔ بہچلی نے ابتدا میں حزبِ شعوبِ جمہوریہ کے نمائندوں سے ملاقات کی، پھر کہا: “اگر اوجلان PKK کو ہتھیار ڈالنے اور تنظیم کو حل کرنے کی دعوت دے گا، تو وہ آ کر اگر چاہے تو حزبِ شعوبِ جمہوریہ کے پارلیمانی گروپ میں بات کرسکتا ہے۔” یہ بیان ترکیہ میں بڑی اہمیت کا حامل ثابت ہوا، کیونکہ بہچلی قوم پرست رجحانات کی اہم ترین شخصیات میں سے ہیں۔ ان کے اس بیان نے 22 اکتوبر 2024ء کو امن کوششوں تیز کر دیا۔ اس کے بعد، صدر ایردوان نے بہچلی کے بیان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا اور قومی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ ابراہیم قالن کو اس عمل کی نگرانی کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ حزبِ شعوبِ جمہوریہ کے نمائندوں نے جیل جا کر اوجلان سے ملاقات کی اور اوجلان نے اپنی طرف سے یہ اعلان کیا کہ وہ بہچلی کی دعوت کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے بعد 27 فروری 2025ء کو پڑھے جانے والے پیغام کی تیاری کا عمل شروع ہوا۔ جبکہ حزبِ شعوبِ جمہوریہ نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ تیز کر دیا تاکہ مزید حمایت حاصل کی جا سکے، ابراہیم قالن اس اعلان کی تفصیلات پر منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے تیاری کرلی، 43 ملکوں پر سفری پابندیاں لگیں گی، پاکستان کس کیٹگری میں شامل؟
بالآخر 25 فروری 2025ء کو اوجلان نے تاریخی اعلان کر دیا: “جمہوریہ کی تاریخ میں سب سے طویل اور سب سے زیادہ وسیع بغاوت اور تشدد کی تحریک، یعنی کردستان ورکز پارٹی (PKK)، نے جمہوری سیاسی راستوں کی بندش کے نتیجے میں طاقت اور عوامی حمایت حاصل کی۔ جبکہ قوم پرستانہ شدت پسندی پر مبنی حل جیسے کہ آزاد قوم کی ریاست، وفاقیت، خود مختار حکومت اور ثقافتی حل، سماجی اور تاریخی حقوق کے لیے معاشرے کی ضروریات کو پورا نہیں کر پائے۔ میں نے 47 سال پہلے دیار بکر کے علاقے لیجہ میں کردستان کی ریاست قائم کرنے کے مقصد سے جو PKK قائم کی تھی، اسے تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں اس دعوت کی تاریخی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، جو موجودہ سیاسی ماحول کے نتیجے میں مجھے اٹھانی پڑی۔ میرا یہ موقف جناب دولت بہچلی کی دعوت، جناب صدر جمہوریہ کی خواہش اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اس دعوت کے لیے مثبت موقف کی وجہ سے تشکیل پایا اور جیسے کہ کوئی بھی جدید تنظیم یا پارٹی جو طاقت کے ذریعے حل نہیں کی گئی ہو، وہ ریاست اور معاشرے کے ساتھ انضمام کے لیے ایک کانفرنس میں جمع ہوئی اور فیصلہ کیا: تمام تنظیموں کو ہتھیار چھوڑ دینا چاہیے اور کردستان ورکز پارٹی کو تحلیل کیا جانا چاہیے۔ میں تمام فریقوں کو جو پرامن ملی زندگی کے حامی ہیں اور میری دعوت کا جواب دیتے ہیں، اپنا یہ پیغام بھیجتا ہوں۔”
یوں ترکیہ کی کرد بغاوت اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ PKK کا تحلیل ہونا عراق کے کردستان میں بارزانی حکومت اور بغداد کی مرکزی حکومت کے موقف کو بھی مستحکم کرے گا، کیونکہ یہ دونوں حکومتیں طویل عرصے سے تنظیم کے ساتھ مسائل کا سامنا کر رہی تھیں۔ اب وہ کسی بھی ایسے فرد کے ساتھ زیادہ آسانی سے نمٹ سکیں گے جو ہتھیار نہ ڈالے ہوں۔
اگرچہ اوجلان کی دعوت کو تسلیم کیا گیا، لیکن شام میں کرد جماعت “یگانِ حفاظتِ عوام” (YPG) نے اعلان کیا کہ وہ اس پر عمل نہیں کریں گے اور کہا کہ “یہ دعوت ترکیہ کی PKK کے لیے ہے، ہم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔” تاہم، اس قدم نے “یگانِ حفاظتِ عوام” کے اندر تقسیمات کو جنم دیا، کیونکہ کچھ ارکان نے اوجلان کی مخالفت کی۔ یہی وجہ ہے کہ قسد نے شامی حکومت کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔
جب مذاکرات سے عالمی سطح کی ایسی خوفناک بغاوت ختم ہو سکتی ہے تو ہمارے بلوچ علیحدگی پسندوں کو رام کرنا کونسا مشکل ہے؟