ایک اسلامی اسکالر کے ملحد ہونے کی داستانِ عبرت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مشہور ترین حدیث ہے: “انما الاعمال بالنیات‘‘ (یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) اس حدیث سے خاص و عام سبھی واقف ہیں۔ اس کی غیر معمولی اہمیت کے باعث بعض حضرات نے بشمول امام شافعیؒ اسے ذخیرۂ حدیث میں موجود دینی تعلیم کا ایک تہائی حصہ قرار دیا ہے۔

اسی اہمیت کے پیش نظر امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ابواب کی ترتیب سے ہٹ کر اسے پہلی حدیث کے طور پر درج کیا ہے۔ امام مسلمؒ اسے صحیح مسلم کے مقدمہ میں لائے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک دوسری حدیث جس کے الفاظ اس حدیث کے مماثل ہیں اور مضمون کے اعتبار سے وہ حدیث بھی ایسی ہی اہمیت کی حامل ہے لیکن عوام الناس بالعموم اس سے ناواقف ہیں۔ امام بخاریؒ باب ’’اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے اور خاتمہ سے ڈرتے رہنا چاہیے‘‘ کے تحت اس حدیث کو لائے ہیں: ’’انما الاعمال بالخواتیم‘‘ یعنی: ’’اعمال کا اعتبار تو خاتمے پر ہے۔‘‘

ان دونوں روایتوں کو یکجا کرکے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی حدیث تو یہ بتاتی ہے کہ نیک اعمال کی قبولیت اخلاص نیت سے مشروط ہے۔ اگر نیت میں خلل واقع ہو جائے تو نیک اعمال صفر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ دوسری حدیث یہ بتاتی ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ آخری سانس تک نیکی پر قائم رہنا چاہئے، ایسا نہ ہوکہ ساری زندگی تو اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرتے رہیں اور آخری لمحات میں (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) راہِ حق سے قدم پھسل جائیں، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ ایک شخص پہاڑ برابر نیکیاں بھی جمع کرلے لیکن اگر وہ آخری لمحہ جادہ مستقیم سے پھر گیا تو وہ سیدھا جہنم رسید ہوجائے گا۔

بھارت کے ایک مندر میں مسلمانوں کیلئے افطار ڈنر کا اہتمام

اعمال میں اخلاص اور آخری سانس تک نیکی پر دوام دونوں لازم و ملزوم ہیں، اسی کو عرف عام ’’خاتمہ بالخیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسے اس مثال سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک طالب علم سارا سال دل لگا کر محنت کرتا ہے، لیکن عین امتحان کے دن غیر حاضر ہو جاتا ہے، یا امتحان کی گھڑی میں غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے تو ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ اسی طرح ایک شخص اخلاص نیت کے ساتھ اعمال انجام دیتا رہتا ہے، لیکن آخری لمحات میں کفر والحاد کا مرتکب ہو جاتا ہے اور توبہ کی توفیق کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کی کوئی نیکی اس کے کسی کام نہیں آئے گی اور وہ سیدھا جہنم میں چلا جائے گا۔ اسی یاددہانی کے ضمن میں قرآن کریم نے خبردار کیا ہے کہ ’’تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔ (سورۃ آل عمران)

حضرت یوسفؑ کی دعاء جو قرآن میں نقل ہوئی۔ وہ اس کی بہترین اور جامع تفسیر ہے: ’’اے میرے رب! تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔‘‘ (سورہ یوسف۔۱۰۱) زندگی کی ہر سانس کے ساتھ تادم آخر ایمان کی سلامتی کے لیے آپؐ کی مسنون دعا کے الفاظ ہیں: “میں اس بات سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت وسوسوں میں نہ ڈال دے۔” دوسری جگہ یاددہانی اور دعا کے الفاظ ہیں: ’’خدایا میری عمر کے آخری حصہ کو زندگی کا بہترین حصہ بنا دے اور بہترین عمل پر میرا خاتمہ کرنا۔‘‘

اس تشریح کے بعد بطور تمثیل کے ہمارے زمانے کے دو نمائندہ کردار ملاحظہ کریں۔ یہ دونوں عرب دنیا میں علمی اعتبار سے بڑے نام تھے۔ عبداللہ القصیمی اور ڈاکٹر طہٰ حسین۔
عبد اللہ القصیمی (1907-1996ء) بیسویں صدی میں سعودی عرب کی علمی دنیا کا ایک بہت بڑا نام تھا۔ اس کی ایک بڑی مشہور اور اہم کتاب ’’بینات‘‘ کے عنوان سے مشکلات فی الحدیث کے موضوع پر ہے۔ اس کتاب میں علوم عصریہ کی روشنی میں بعض احادیث نبویؐ پر شدید تنقید کا انتہائی مؤثر جواب دیا گیا۔ پاکستان میں مولانا نصرت اللہ مالیر کوٹلی نے اس کتاب کو اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ یہ اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتی ہے۔ عبداللہ القصیمی کمال درجہ کا داعی اور مبلغ تھا۔ مشہور کتاب ’’الصراع بين الإسلام والوطنية‘‘ (اسلام اور نیشنل ازم کا ٹکراؤ) انہی نے تصنیف کی ہے۔ اہلِ علم میں اس کتاب کو ملنے والی بے پناہ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس وقت مسجد حرام کے امام و خطیب الشیخ عبد الظاہر ابو سمح رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں پورا قصیدہ لکھا اور منبر حرم پر سنایا تھا:
صراع بين إسلام وكفر …. يقوم به القصيمي الشجاع
خبير بالبطولة عبقري …. له في العلم والبرهان باع
يقول الحق لا يخشى ملاماً …. وذلك عنده نعم المتاع
مشہور عرب عالم دین صلاح الدین منجد کا کہنا ہے کہ قصیمی نے اس کتاب کو لکھ کر گویا جنت کا حق مہر ادا کردیا ہے۔ علمی قدر و منزلت کی بناء پر اس شخص کو ’’ابن تیمیہ ثانی‘‘ کہا جانے لگا تھا۔ اس علمی کمال کے بعد اس کے ایمانی زوال کی داستان بھی بے حد عبرت ناک ہے۔

شریف اللہ کون ہے؟ پاکستان نے اسے کیوں امریکا کے حوالے کیا؟

1980ء میں جب اس کی عمر 73 سال تھی، وہ بیروت میں ایک عیسائی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوگیا اور اس کے بعد وہ گمراہی میں درجہ بدرجہ بڑھتا ہی چلا گیا، یہاں تک کہ عرب دنیا میں الحاد کے داعی کی حیثیت اختیار کر گیا۔ یوں تو اس نے اپنی گمراہی کے ثبوت میں بہت سی کتب ورثہ میں چھوڑی ہیں۔ اس نے بے دین گمراہ افکار کے دفاع میں کتاب لکھی: ’’يکذبون لکی یروا الالہ جمیلا‘‘ (وہ جھوٹ اس لیے بولتے ہیں کہ معبود کو خوبصورت نظر آئیں) اسی طرح ’’هذہ هی الاغلال‘‘ (یہی وہ زنجیریں ہیں) کے نام سے بھی اس نے کتاب لکھی۔ اس کتاب میں صوم و صلوٰۃ اور دیگر عبادات کو گلے کے طوق کے ساتھ تشبیہ دی ہے، پھر اس نے اپنے ملحد اور خدا کے وجود کے منکر ہونے کا اعلان کردیا۔ 1996ء میں زمین اس کے وجود سے پاک ہوگئی اور یہ بدبخت سرطان کے موذی مرض میں مبتلا ہوکر اپنے دائمی مستقر کی طرف روانہ ہوگیا۔
(من أخبار المنتكسين مع الأسباب والعلاج، تأليف صالح بن مقبل العصيمي، ص:230)
معلوم ہوا ابتدا ہی سب کچھ نہیں، اصل چیز انجام اور خاتمہ ہے۔ ابدی کامیابی اور ناکامی کا سارا انحصار خاتمہ کی کیفیت پر منحصر ہے۔
ڈاکٹر طہٰ حسین (1889-1973ء) مصر میں پیدا ہوئے۔ بینائی سے محروم طہٰ حسین بیسویں صدی میں عربی ادب کی دنیا کا بہت بڑا نام ہے۔ ان کا نام 21 مرتبہ نوبل انعام کے لیے تجویز ہوا تھا۔ عالمی شہرت کے مالک طہٰ حسین طالب علمی کے دور میں ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ طبعاً سرکش بھی تھے۔ ازہری شیوخ پر تنقید کے باعث جامعہ ازہر سے فراغت کے بعد ان کی ڈگری روک لی گئی۔ غربت اور بینائی سے محرومی کے باوجود انہوں نے اَن تھک محنت کے بعد فرانس سے Ph.d کی ڈگری لی۔ عربی اور فرانسیسی زبان پر بلا کا عبور رکھنے والا یہ عبقری ادیب، لاطینی اور یونانی زبانوں سے بھی خوب واقف تھا۔ طہٰ حسین ایک طویل عرصہ تک مصر کے وزیر تعلیم بھی رہے۔ فرانس جانے سے پہلے طہٰ حسین کے خیالات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو: ’’مسلمانوں کی ترقی کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ دین کے ان اصولوں کی طرف رجوع کریں، جنہیں وہ چھوڑ چکے ہیں۔ اس کے بغیر نہ ان کی حالت سنور سکتی ہے اور نہ ہی ان کی نسلیں۔‘‘ فرانس جانے کے بعد طہٰ حسین گہری اسلام پسندی سے شدید قسم کی مغرب زدگی میں دھنس گئے۔ فرانس میں ان کی ملاقات ایک راسخ العقیدہ عیسائی خاتون سوزان سے ہوئی، وہ چلنے پھرنے سے لے کر لکھنے پڑھنے تک ہر کام میں ان کی معاونت کرتی تھی۔ طہٰ حسین نے اس خاتون کو شادی کی پیش کش کی تو اس نے کہا کہ تم مسلمان اور غیر ملکی ہونے کے ساتھ ساتھ نابینا بھی ہو، میں تم سے شادی کس طرح کرسکتی ہوں۔ سوزان کا ایک چچا جومشنری پادری تھا۔ اس نے بھانپ لیا تھا کہ طہٰ حسین علمیت اور ذہانت کے اعتبار سے بڑے پائے کا آدمی ہے اور اس کی صلاحیتوں کو اسلام کے خلاف اور مغرب کی حمایت میں بخوبی استعمال کیا جاسکتا ہے، چناں چہ اس مقصد کے تحت اس نے اپنی بھتیجی کو شادی پر قائل کرلیا۔ اس شادی کے بعد طہٰ حسین پورے طور پر اسلام سے بیزار ہوکر مغرب کے وکیل بن گئے۔ ان کی تمام صلاحیتیں دین دشمنی کے لیے وقف ہوگئیں۔ اپنی کتاب ’’فی الشعر الجاہلی‘‘ میں انہوں نے عہد جاہلیت سے منسوب ساری شاعری کو من گھڑت قرار دیا۔ یہی نہیں وہ یہاں تک کہہ گئے کہ تورات اور قرآن میں حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا جو ذکر آیا ہے، لازمی نہیں کہ وہ واقعی تاریخی شخصیات بھی ہوں (معاذ اللہ)۔ الحاد سے بھی ایک قدم آگے جاکر اس نے آپؐ کے خانوادے کی عالی نسبی، شرف اور سیادت پر بھی استہزا کیا، جس پر بڑا ہنگامہ برپا ہوا اور وہ کتاب بازار سے اٹھالی گئی۔ طہٰ حسین نے معذرتی بیان بھی جاری کیا، لیکن اس کی دین دشمنی اپنی جگہ موجود رہی اور وہ بدبختی کی اس انتہا پر چلا گیا کہ آپؐ کے نام نامی کے ساتھ درود کا لاحقہ بھی اس کی تحریروں سے غائب ہوگیا۔
1932ء سے 1952ء کے عرصے میں طہٰ حسین کی زندگی نے پلٹا کھایا۔ انہوں نے اپنی گمراہ تحاریر سے اعلانیہ برأت کا اظہار کیا۔ اس طہٰ حسین نے ایک نیا جنم لیا، ایک راسخ العقیدہ مسلمان بن گئے اور ان کا قلم گمراہی سے راستی پر آگیا۔ انہوں نے ’’علی ھامش السیرۃ‘‘ (اردو ترجمہ نقوش سیرت) کے عنوان سے سیرت طیبہ پر شہرہ آفاق کتاب لکھی، جو عربی ادبیات میں سحر البیانی کا انمول نمونہ سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ کی سیرتوں پر بہت خوب صورت کتب تحریر کیں۔ عیسائی مشنریوں نے مصر میں دھونس دھاندلی کے ذریعے مسیحیت کی تبلیغ شروع کی تو طہٰ حسین اس کے خلاف دیوار بن گئے۔ شیخ الازہر نے جب سود کے معاملے پر نرمی دکھائی، تب بھی طہ حسین نے اس پر کھل کر تنقید کی۔

مائیگرین کیا ہے، کیوں ہوتا ہے اور اس کا آسان علاج کیا ہے؟

اب ان کی زندگی کا سب سے بڑا انقلابی موڑ دیکھیں، 1955ء میں طہٰ حسین جب حجاز مقدس گئے تو حدیبیہ کے مقام پر گاڑی رکوائی اور مٹی اٹھا کر سونگھتے رہے، مسلسل روتے رہے اور کہتے رہے کہ اس مٹی سے آپؐ کی خوشبو آرہی ہے۔ گھنٹے بھر تک ان کی یہی کیفیت رہی۔ مکہ پہنچے تو غلاف کعبہ سے لپٹ کر زار و قطار روتے رہے۔ اس زمانے میں سیلاب کے باعث مکہ سے مدینہ کا زمینی راستہ بند تھا۔ ہوائی سفر سے طہٰ حسین کو سخت تکلیف ہوتی تھی اور اسی وجہ سے وہ بڑے بڑے دورے منسوخ کردیتے تھے۔ چناں چہ جب ان سے کہا گیا آپ اگلی دفعہ مدینہ حاضر ہو جائیے گا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایسا کیا تو مجرم ٹھہروں گا، میں آیا نہیں ہوں بلایا گیا ہوں۔ مدینہ حاضری پر ان کی وارفتگی اور بے خودی ناقابل بیان تھی۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ یہاں آکر کیسا محسوس کررہے ہیں؟ انہوں نے ایک جملہ میں اپنی توبہ کو بیان کر ڈالا۔ میں طویل عرصے کے غیاب و سفر کے بعد ’’اپنے دل اور اپنی روح کے وطن میں واپس آیا ہوں۔‘‘ مدینہ ایئرپورٹ پر ایک صحافی نے ان سے کچھ بولنے کی درخواست کی تو کہا کہ: ’’اس ارض مقدس کی ہیبت بولنے سے مانع ہے۔ میں اس جگہ کیسے کلام کرسکتا ہوں، جب کہ خدا نے کہا ہے کہ اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے پست رکھو۔‘‘
آخری عمر ڈاکٹر طہٰ حسین نے لکھنے سے زیادہ پڑھنے میں گزاری۔ ایک مسنون دعا وہ کثرت سے پڑھا کرتے تھے، عمرہ کے دوران بھی یہی دعا ان کا مستقل ورد تھی۔ کسی مغربی ملک میں انہوں نے جب یہ دعا فرانسیسی ترجمہ کے ساتھ پڑھی تو ایک مسیحی خاتون نے سن کر بڑی متاثر ہوئی اور اس نے ڈاکٹر صاحب سے دوبارہ سن کر اسے تحریر کر لیا اور تحسین کے الفاظ ادا کیے۔ ڈاکٹر صاحب نے وصیت کی تھی کہ یہی دعا ان کی قبر کے کتبہ پر تحریر کی جائے۔ دعا یہ ہے:
ترجمہ: ’’خدایا! تیرے لیے ہی ساری تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو تھامنے والا ہے اور تیرے لیے ہی ساری تعریف ہے۔ تو آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے ان کا رب ہے۔ توہی حق ہے اور تیرا وعدہ ہی حق ہے۔ جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، انبیاء حق ہیں اور قیامت کی گھڑی حق ہے۔ خدایا! میں نے تیرے سامنے ہی سرتسلیم خم کیا، تجھی پر ایمان لایا، تجھی پر توکل کیا، تجھ سے ہی لو لگایا، تیری مدد سے ہی نزاع کیا اور تجھی کو فیصل بنایا۔ پس میں نے جو کچھ اعمال آگے بھیجے ہیں، جو کچھ پیچھے چھوڑا ہے، جو چھپایا ہے اور جو علانیہ ظاہر کیا ہے، اس سب کو بخش دے۔ تو میرا معبود ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔‘‘

Related Posts