مون سون کے دوران نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث کراچی میں سیلاب کے خطرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مون سون کے دوران نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث کراچی میں سیلاب کے خطرات
مون سون کے دوران نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث کراچی میں سیلاب کے خطرات

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی مون سون کے موسم میں مختلف نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث سیلاب کے نتیجے میں زیرِ آب آسکتا ہے کیونکہ سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ کی طرف سے نالوں کی صفائی کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔

سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ کے اعلیٰ افسران جو نالوں  کی صفائی کیلئے دی گئی خطیر رقوم میں بدعنوانی کے ذمہ دار ہیں، بڑی آسانی سے کراچی کے شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے میں مصروف ہیں۔

اس حوالے سے ایم ایم نیوز نے جب سینئر صحافی فرید عالم سے گفتگو کی تو انہوں نے نالوں کی صفائی پر چشم کشا حقائق بیان کیے جو ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ 

نالوں کی صفائی مسئلہ کیوں؟

غور کیا جائے تو نالے کراچی شہر کے گلی کوچوں میں جگہ جگہ موجود ہیں جن میں گندگی پیدا ہونا ایک مسلسل عمل ہے جس کیلئے ایک مستقل فنڈ ہونا چاہئے تاہم ہر سال مون سون کے موقعے پر اسے بڑھا چڑھا کر بیان کیاجاتا ہے۔

ہر سال جب مون سون کا موسم قریب آتا ہے تو بھاری بھرکم فنڈز جمع کرنے کیلئے نالوں کی صفائی روک دی جاتی ہے۔ سن 2018 اور 19ء کے دوران سپریم کورٹ نے ایکشن لیا اور سندھ حکومت نے کے ایم سی کو 70 کروڑ سے زائد رقم نالوں کی صفائی کیلئے دی۔

کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) نے رقم وصول ہونے کے بعد ہزاروں ٹن کچرا نکالنے کا دعویٰ کیا تاہم نالوں کی صفائی محض جزوی طور پر کی گئی اور چند ہی روز کے بعد نالے اسی طرح غلاظت سے بھرپور دکھائی دینے لگے۔

شہریوں کے فرائض

واضح رہے کہ ہر معاملے کی ذمہ دار صرف حکومت نہیں ہوتی۔ جو شہری برساتی نالوں کے قریب رہتے ہیں وہ اپنا کوڑا کرکٹ کچرا کنڈی میں پھینکنے کی بجائے برساتی نالوں میں پھینک دیتے ہیں جس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔

کراچی کے شہریوں کے ساتھ ساتھ برساتی نالوں میں واٹر بورڈ نے بھی اپنی سیوریج کی لائنیں چھوڑ دی ہیں جس سے برساتی نالے گٹر کی طرح بدبودار ہو گئے ہیں جس کے تدارک کی ضرورت ہے۔

بارشوں سے کیا خطرات لاحق ہیں؟

کراچی میں گزشتہ برس معمولی بارشوں کے باعث نالوں کا پانی سڑکوں پر آگیا۔ سڑکوں اور گھروں میں چار چار فٹ اور بعض جگہ 6 سے 10 فٹ تک پانی کھڑا ہوگیا جس کے باعث متعدد راستے بند ہو گئے۔

رواں برس شدید بارشوں کی پیش گوئی کے باعث گھروں اور سڑکوں پر اس سے کہیں زیادہ پانی کھڑا ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں بڑی تباہی اور بحران جنم لے سکتا ہے۔

زیادہ خطرات والے علاقے 

کراچی کے بعض علاقوں میں گزشتہ برس لوگوں کو چھتوں پر رہائش اختیار کرنا پڑی کیونکہ زمین رہائش کے قابل نہیں تھی۔ گجر نالہ کے ساتھ ساتھ گرین ٹاؤن نالہ، اورنگی ٹاؤن، گلاس ٹاور، سولجر بازار، شاہ فیصل میں نالے موجود ہیں جن کے قریبی علاقوں کوڈوب جانے کے زیادہ خطرات ہیں۔

ایسے علاقوں کے رہائشی افراد کو چاہئے کہ سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ کے رحم و کرم پر رہنے کی بجائے اگر ممکن ہو تو یہاں سے ہجرت کر جائیں، تاہم اگر حکومت ان معاملات کا احساس کر لے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ 

نالوں کی صفائی کیلئے موجودہ حکومتی اقدامات

سیکریٹری بلدیات روشن علی شیخ کے دفتر میں سیکریٹری بلدیات کی زیرِ صدارت 4 روز قبل اجلاس ہوا۔ واٹر بورڈ، کے ایم سی، کے ڈی اے، ڈی ایم سی سمیت تمام متعلقہ اداروں کے اہم افسران شریک ہوئے۔

اجلاس کے دوران رین ایمرجنسی کے نفاذ اور  نالوں کی صفائی کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔ سیکریٹری لوکل گورنمنٹ اور ڈی ایم سیز میں خصوصی سیلز بھی قائم کیے گئے۔

صفائی کے مراحل 

صفائی کے 2 الگ الگ مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں بڑے بڑے نالے جن میں گجر نالہ، گرین ٹاؤن نالہ اور گلاس ٹاور نالہ سمیت تمام بڑے نالے شامل ہیں، ان کی صفائی کی جاتی ہے جس کا ذمہ دار ادارہ کے ایم سی ہے۔

دوسرے مرحلے میں اندرونِ شہر چھوٹے چھوٹے نالوں کی صفائی کی جاتی ہے جس کی ذمہ دار متعلقہ بلدیات کے ادارے ہیں۔ ضلعی بلدیات میں نالوں کی صفائی کیلئے پیسوں کی خوردبرد ایک کھیل بن گیا ہے۔

صفائی کے نام پر کرپشن کا دھندہ

ضلعی بلدیات میں نالوں کی صفائی کے نام پر ہر سطح پر مثلاً مشینری کے نام پر، ڈیزل کی مد میں، لیبر کیلئے اور کچرہ اٹھانے کی مد میں پیسے خورد برد کیے جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں برساتی نالے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بارشیں پاکستان سے زیادہ بھی ہوتی ہیں، وہاں نالوں کی صفائی کو کوئی ادارہ مسئلہ قرار نہیں دیتا۔ نالوں کی صفائی کے باعث ملک صاف ستھرا رہتا ہے۔

حکومتِ سندھ نے 1 ارب 76 کروڑ کے فنڈز نالوں کی صفائی کیلئے مختص کیے ہیں جو ورلڈ بینک منصوبے کے تحت بڑے نالوں کی صفائی کیلئے استعمال کیے جائیں گے، تاہم انتظامیہ کی کارکردگی دیکھتے ہوئے چھوٹے اور بڑے نالوں کی صفائی کو مسئلہ بنایا جارہا ہے۔

مسائل کا حل کیا ہے؟

جب تک بلدیاتی اداروں اور کے ایم سی سے کرپشن ختم نہیں ہوگی، نالوں کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ فنڈز کے استعمال کے طریقہ کار پر افسران کے احتساب کا واضح طریقہ کار نافذ کرے۔

عوام الناس بارشوں سے لطف اٹھانے کی بجائے گھروں میں داخل ہونے والے گٹروں کے پانی سے خوفزدہ رہتے ہیں اور رواں برس یہ مسئلہ شدید بارشوں کی پیشگوئی کے باعث شدت اختیار کر گیا ہے۔

شہریوں کی بڑی تعداد نے وزیرِ اعلیٰ سندھ، کمشنر کراچی اور حکامِ بالا سے اپیل کی ہے کہ شہرِ قائد کو رواں برس تباہی سے بچایا جائے اور نالوں کی صفائی کیلئے دئیے گئے کروڑوں کے فنڈز کو کرپشن سے محفوظ کیا جائے۔

Related Posts