اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 اقتدار گنوانے کے بعد الزام تراشی کی سیاست کرنیوالے عمران خان نے سیاست کے آغاز میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف بیانات دیئے ، یہ تب کی بات ہے جب وہ سمجھتے تھے کہ واقعی جمہوریت کو ڈیل ریل کرنے ، بچی کچھی جمہوریت میں اپنا رنگ جمانے میں اصل کردار اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے میٹھی گولی دینے کا ارادہ کیا اور کثیر تعداد میں انصافی جھنڈے بنائے گئے اور عمران خان کو تھما دیئے گئے کہ ہم جو بھیجتے جائیں گے بس آپ اس بندے کے گلے میں یہ جھنڈے ڈالتے جانا اور گنتی گنتے جانا ۔

یوں تحریک انصاف کے چولہے میں اسٹیبلشمنٹ کی لکڑیاں شیخ رشید، اسد عمر ، شاہ محمود قریشی کی صورت میں جلنے لگیں ، ساتھ ہی ساتھ اس انصافی دیگ کے فیض کو پھیلانے کے لئے باجواتی معجون کا استعمال کیا گیا جس نے موثر ترین کردار ادا کیا۔یوں 2018 میں تیار ہونے والی اس دیگ کے مرغوبے کا جادو سر چڑھ کر ایسا بولا کہ ارسلان خالد بریگیڈ کو سوشل میڈیا کے میدان میں تیر تفنگ دیکر چھوڑ دیا گیا ۔

جس کو کُمک پہنچانے کے لئے حسن نثار ، ہارون الرشید ، اوریا مقبول جان ، ارشاد بھٹی ، کاشف عباسی ، صابرشاکر ، آفتاب اقبال جیسے لوگ مہیا کئے گئے جنہوں نے اسلام سے لیکر تاریخ اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں والی دیومالائی کہانیاں بنانا شروع کیں ، یہ کہانیاں اس قدر موثر تھیں کہ والدین کو لیگی ، پیپلا اور جمعیتی ہونے سے تو نہ روک سکی مگر بیٹوں کو انصافی /یوتھی بنا گئیں اور پھر ان کو چالیس چوروں کیخلاف میدان جہاد میں نکالا گیا یوں والدین کے مخالف پہلی بار نوجوان نظر آئے ۔

جوں جوں پنڈی کے تیار کردہ نشے نے اپنے اثرات گہرے کئے تو اپوزیشن نے سندھ ، بلوچستان ، پنجاب اور کے پی کے بارڈر کے قریب دو فٹ گہرے کھڈے کھودے اور سارے اختلافات 2023 تک وہاں امانتاً دفن کر دیئے اور”منہ ول پنڈی دے“ کر کے بیٹھ گئے ۔ اس دوران بنت نواز شریف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا کر پارٹی کے اچھے خاصے لوگ جیل پہنچا چکی تھیں ۔ مولانا فضل الرحمٰن تاریخ ساز لشکر لیکر ”جہاں ہو وہیں رک جاؤ“ کا نعرہ مستانہ لگا چکے تھے ، یہ وہ وقت تھا جب ملک میں مولوی کے لشکر کی تائید لبرل اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ لوگ کر رہے تھے ۔

عین اس کے اریب قریب ”حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں“ کا بیان جاری ہوا جب کہ اصل میں پیج پھٹ چکا تھا اور ریورس گیئرلگ چکا تھا ۔ اصل بات تب کھلی جب ایک شخص پیدل پیدل پشاور عہدہ سنبھالنے پہنچا تب پیج کے دوسرے کونے پر بیٹھے معتبر شخص نے اپوزیشن کے کرتا دھرتا کو پیغام دیا کہ ”ہم وہیں رک گئے“ اب آپ جانیں اور عمران جانے مگر ’’چالیس چوروں‘‘ کے گروہ نے الیکشن 2023 سے قبل نیوٹرل ہونے کی ضمانت چاہی جس پر کہا گیا کہ خود زور لگاؤ اور عدم اعتماد کر کے اپنی سیاست دیکھ لو ۔

پشاور پہنچنے والے مسافر کو معلوم تو ہو چکا تھا کہ پیج پھٹ چکا ہے اور ہم تین مختلف پیجزپر ہیں مگر تب تک دیر ہو چکی تھی جس کے بعد اب مختلف تھیوریز اپلائی ہونا شروع ہو چکی ہیں ۔ شاید صفحہ تو آئندہ الیکشن تک نہ جُڑ سکے کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے دو ایسے گروپ ہیں جن میں ایک گروپ کے پاس فیضی مصالحے والی دیگ ہے جو قوم یوتھ کھا رہی ہے جب کہ دوسرے ”رجے“ہوئے ڈکار مار رہے ہیں ۔

فیضی دیگ کھانے والوں میں سے بعض کو اس وقت شدید بد ہضمی بھی ہے جو کہ اچھی صحت کی جانب پہلا قدم قرار دی جا رہی ہے ۔ فیضی دیگ کھانے والی قوم یوتھ کے بعض لوگ ٹویٹر پر ” bajwasurrender “ اور حساب باقی ہے،one man vc every one جیسے ٹرینڈ چلا کر اسٹیبلشمنٹ کو کھری کھری سنا رہی ہے ۔

سیاسی اپروچ رکھنے والے اس بد ہضمی کو خوش آئند تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ بعض لوگ یہ مان رہے ہیں کہ عمران خان اب بھی اگراصل ٹارگٹ کو پہچاننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کے خلاف اپنی پرانی تقاریر سن کرہفتہ کی رات کو پیش آنے والا ناخوشگوار واقعہ کویاد کرتے ہوئے اللہ کا نام لیکر میدان میں نکلتے ہیں تو عوام ان کے ساتھ ہو گی اور اگر اب بھی سب کچھ بھول کر صرف ’’تھری اسٹوجز‘‘ کا لالی پاپ منہ میں رکھ کر جھاگ اڑائی جائے گی توسامنے موجودہ درجن بھر جماعتوں میں خوشیاں بدستور منائی جاتی رہیں گی ۔

اگر عمران خان اصل حقائق لیکر سامنے آجاتے ہیں تو اس صورت میں ان کیلئے لوگ مزید نکلیں گے ‛ ان کے لوگ اگر آئندہ وفاداریاں نہ بدل گئے تو ان کے ووٹ بینک میں اضافہ بھی ہو گا کیونکہ وہ اصل حقائق سے عوام کو آگاہ کر رہے ہونگے اور اگر آسیہ کی واپسی، عافیہ پر خاموشی، حافظ سعید کی نظر بندی و قید، کشمیر پر صرف خاموشی، اسٹیٹ بینک پر باہر سے گورنر لانے جیسے واقعات کے بعد بھی امریکی دھمکی کی سازشی تھیوری کی لکیر کو پیٹا گیا تو اس کا مطلب حالات سے انہوں نے کچھ نہیں سیکھا۔

Related Posts