عید الاضحی اور حقیقی قربانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہر سال عید الاضحی مذہبی جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے جس کا مقصد ایثار و قربانی کے اُس عظیم جذبے کی یاد تازہ کرنا ہے جس نے آج سے صدیوں پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنی جان کی قربانی کیلئے رضامند کردیا تھا۔

اِسی جوش و جذبے کی یاد تازہ کرتے ہوئے آج سے کم و بیش 100 سال قبل علامہ اقبالؔ نے فرمایا: وہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی؟ ۔

یہ وہی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جنہیں نمرود نے آگ کے شعلوں کی نذر کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے اور برگزیدہ نبی کی جان اِس طرح بچائی کہ وہ رہتی دنیا کیلئے مثال بن گئی۔

آگ نے پھولوں کی صورت اختیار کر لی اور خدا کا راضی بہ رضا رہنے والا نبی جل کر خاکستر ہونے کی بجائے گلوں کی خوشبو سے معطر ہوگیا۔ یہی بات یاد کرتے ہوئے ایک اور جگہ شاعرِ مشرق نے فرمایا:آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیداآج ہمارے اندازو اطوار بدل گئے ہیں۔

نظریات میں انقلابی تغیرات رونما ہوئے جن کے باعث ہم اپنے اسلاف سے ذہنی اعتبار سے اتنے دور ہیں کہ ان کے اعتقادات پر عمل تو دور کی بات،انہیں سمجھنا بھی ہمارے لیے ایک ناممکن سی بات بن کر رہ گئی ہے۔

اچھا کرنے کی بجائے اچھا لگنے کی کوشش نمائش کہلاتی ہے۔ ہم صرف داڑھیاں رکھ کر اور بڑی بڑی پگڑیاں باندھ کر مخلوقِ خدا کو یہ یقین دلانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں کہ ہم سے زیادہ نیک اور پارسا شخص سارے عالم میں اور کوئی نہیں ہے جبکہ عیدِ قربان ہر سال ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کرتی ہے۔

انبیائے کرام کا مقابلہ عام انسانوں سے کسی صورت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خدا کے وہ منتخب لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی، سوچ اور خواب و خیال سب کچھ بہت خاص اور بے حد غیر معمولی ہوتا ہے۔

تاریخِ اسلام سے ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا۔ خواب میں انہوں نے دیکھا کہ میں اسماعیل کی قربانی دے رہا ہوں۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب اِس بات کا علم ہوا تو وہ خود اللہ کی راہ میں قربان ہونے کیلئے تیار ہو گئے اور پھر چشمِ فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا جب ایک باپ چھری لے کر اپنے بیٹے کی گردن پر چلانے لگا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی کا یہ مقصد طے نہیں کیا تھا کہ وہ گلا کٹا کر خدا کی راہ میں قربان ہوجائیں بلکہ آگے چل کر حضور اکرم ﷺ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولادمیں شامل ہونا تھا۔

خدا کا وہ برگزیدہ نبی (اسماعیل علیہ السلام) خدا کی راہ میں جسمانی طور پر قربان ہو ہی نہیں سکتاتھا۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی جگہ ایک دنبے کی قربانی قبول فرمائی۔

عظیم نبی کا عظیم فرزند خدا کی راہ میں اپنے آپ کو پیش کرکے ذبیح اللہ کہلایا جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جذبۂ ایثار، توکل علی اللہ اور عشقِ خداوندی کے سبب انہیں خلیل اللہ کا لقب عطا کیا گیا۔ حضورِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے : انما الاعمال بالنیات۔ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی نیت اتنی پختہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جان کی قربانی نہ لے کر بھی اسے قبول فرمایا اور رہتی دنیا کیلئے سنتِ ابراہیمی پر عمل کو لازمی قرار دے دیا۔ اہلِ ایمان کیلئے عیدِ قربان کے پیغام کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

خدا کی راہ میں وہ چیز قربان کی جائے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ عیدالاضحی کے موقعے پر اچھے سے اچھے جانور کی قربانی بھی اسی زمرے میں شامل ہے۔ قربانی کا گوشت رشتہ داروں، اہل و عیال اور دوست احباب کے ساتھ ساتھ مستحقین، ضرورت مندوں، یتامیٰ اور مساکین میں بھی تقسیم کرنا ضروری ہے۔

آج عیدالاضحی کے تیسرے دن کے موقعے پر سوال یہ ہے کہ امتِ مسلمہ میں ایسے مسلمان کتنے ہیں جنہوں نے قربانی کے گوشت سے اپنے فریج اور فریزر بھرنے کی بجائے غریبوں اور مساکین کا خیال کیا؟۔

عالمی وباء کے باعث ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے باعث کتنے ہی لوگ بے روزگار اور کتنے ہی مفلس اور قلاش ہوئے لیکن کیا ہمیں ان کا کوئی احساس ہے؟ ۔

بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے لیکن قربانی کے گوشت پر حق خدا نے مخلوق کا رکھا ہے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ شریعتِ اسلامیہ کے مقرر کردہ اصولوں کی پاسداری پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے سے گریز کریں۔یہی عیدِ قربان کا خاص پیغام ہے۔

Related Posts