دوہرا معیار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کی سیاست میں دوہرے معیار کا چلن ایک عام سی بات ہے تاہم بطور خاص جب ہم پاکستان تحریک انصاف کی بات کرتے ہیں تو ہمیں دوہرے معیار کی مثالیں نسبتاً زیادہ ملتی ہیں، ایسا ہی ایک عام دوہرا پن یہ ہے کہ پی ٹی آئی دوسری جماعتوں میں جس اختلاف رائے کو سراہتی ہے، وہی اختلاف رائے اس کی اپنی صفوں میں سر اٹھائے تو مردود ٹھہرا دیا جاتا ہے۔

حال ہی میں پی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سینیٹ کی رکنیت سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ پارٹی کی سینئر قیادت ان کے بعض سیاسی بیانات کی وجہ سے ان سے خوش نہیں ہے۔

کھوکھر صاحب کا استعفیٰ سامنے آتے ہی پی ٹی آئی رہنماؤں نے کھل کر ان کے ‘اصولی موقف’ کی داد دی اور استعفیٰ   دینے کے اقدام کو سراہا۔ یہاں تک کہ مصطفیٰ کھوکھر کے اقدام کو جمہوریت کی اصل روح تک کہا گیا۔

دوسری جانب پی پی پی رہنما نے استعفیٰ دینے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ پارٹی کے مثبت ردعمل کے لئے شکر گزار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی طرف سے میرے اقدام پر جو مثبت رد عمل ملا، یہ میرے تصور سے بھی باہر تھا۔ انہوں نے اپنے اقدام کی تحسین کرنے والے تمام سیاستدانوں کا شکریہ ادا کیا، جس میں ظاہر بات ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما پیش پیش تھے۔

دوسری جماعتوں میں اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کا اپنا حال یہ ہے کہ ان کی پارٹی سے آئے دن اختلافی آوازیں اٹھانے اور پارٹی کی سیاسی پوزیشن کی مخالفت کرنے والے رہنماؤں کو بغیر کسی نوٹس کے نکالا جا رہا ہے۔ اکبر ایس بابر سے لے کر فیصل واوڈا تک اور اب خرم حامد روکھڑی تک اس کی کئی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

حال ہی میں ایک نجی ٹی وی پر اپنے تازہ انکشاف میں خرم روکھڑی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پارٹی قیادت کے حکم پر پارٹی رہنما سلمان احمد کے ہمراہ اس اعلیٰ فوجی افسر سے کئی ملاقاتیں کیں، جس پر عمران خان نے وزیر آباد حملے کا الزام لگا رکھا ہے۔

خرم روکھڑی کے اس انکشاف بھرے دعوے کے سامنے آتے ہی دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی، پی ٹی آئی رہنماؤں بشمول فواد چوہدری، عثمان ڈار، شہباز گل اور دیگر نے رد عمل میں کھل کر کہا کہ وہ خرم روکھڑی کو جانتے ہی نہیں ہیں، مگربہت جلد حقائق سامنے آگئے، جب میڈیا پر خرم روکھڑی کی عمران خان، فواد چوہدری اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ بنائی گئی تصاویر نشر ہوئیں۔ پی ٹی آئی قیادت نے پہلے تو خرم روکھڑی کو پہچاننے سے ہی انکار کردیا، تاہم جب تصویری ثبوتوں سے ثابت ہوا کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہیں تو خاموشی سے واوڈا کی طرح انہیں بھی فوری طور پر پارٹی سے نکال دیا گیا۔

پی ٹی آئی کی یہ عادت رہی ہے کہ اختلاف جب دوسری پارٹیوں میں ہوتا ہے تو اس کے نزدیک یہ قابل تعریف اور جمہوریت کی روح کے عین مطابق قرار پاتا ہے، لیکن یہی “جمہوری روح” اس کی اپنی صف میں گھس آتی ہے تو پی ٹی آئی پر سخت ناگوار گزرتی ہے۔ آخر یہ دوہرا معیار کب تک چلے گا؟!

Related Posts