کیا واقعی سعودیہ کے ساتھ معاہدہ کرنے پر حوثیوں نے پاکستان کیخلاف اعلان جنگ کردیا؟

مقبول خبریں

کالمز

dr jamil
دہشت گردی کا چیلنج
dr jamil
استنبول مسلم وزرائے خارجہ کا مشترکہ اعلامیہ۔۔۔کیا اسرائیل جنگ بندی کی پابندی کرسکے گا؟
dr jamil
امریکا بھارت دفاعی پینگیں اور اس کے خطے پر مضر اثرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فائل فوٹو

بعض سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دیگر ذرائع پر یہ دعویٰ گردش کر رہا ہے کہ یمن کی مسلح تنظیم انصار اللہ، جسے عام طور پر حوثی کہا جاتا ہے، نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔

یہ خبر بظاہر ایک ویڈیو کلپ اور چند تراجم پر مبنی ہے، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حالیہ دفاعی تعاون کے بعد حوثی قیادت نے براہِ راست پاکستان کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ تاہم جب اس خبر کو معتبر ذرائع سے پرکھا گیا تو صورتِ حال کچھ اور سامنے آئی۔
سب سے پہلے یہ واضح ہو کہ حوثیوں کی اصل جنگ یمن کے اندر سعودی اتحادی افواج اور مقامی مخالف گروہوں کے ساتھ جاری ہے۔ ان کا ہدف براہِ راست سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی وہ کارروائیاں رہی ہیں جنہیں وہ یمن کے خلاف جارحیت قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کا یمن کی داخلی جنگ میں براہِ راست کوئی عسکری کردار موجود نہیں۔ اگرچہ پاکستان نے ماضی میں سعودی عرب کے دفاع کے لیے سیاسی اور سفارتی حمایت ضرور فراہم کی ہے اور متعدد بار سعودی عرب پر ہونے والے میزائل اور ڈرون حملوں کی مذمت کی ہے، لیکن پاکستان نے یمنی محاذِ جنگ پر فوجی تعیناتی سے ہمیشہ احتراز کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ویڈیو کے بارے میں بعد میں حقائق سامنے آئے کہ یہ ایک پرانا بیان ہے جسے نئے حالات کے تناظر میں سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا۔

اس خبر کو جب فیکٹ چیک کے ذریعے پرکھتا گیا تو واضح ہوا کہ ویڈیو میں پاکستان کا براہِ راست ذکر تک نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے براہِ راست خود حوثی میڈیا میں تلاش کیا۔ جیسے کہ المسيرة نیوز چینل اور سبا نیوز وغیرہ۔ پھر یمنی اخبارات میں حوثی حکومت یا عسکری رہنماوں کے بیانات وغیرہ کا جائزہ لیا، مگر کوئی ایسی دستاویزی اطلاع نہیں ملی، جس میں انہوں نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیا ہو۔
اس کے باوجود متعدد اکاؤنٹس اور غیر معتبر ذرائع نے اس کو پاکستان کے خلاف دھمکی قرار دے کر پھیلایا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ حوثیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے سعودیہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دے دی تو اس کے فوجیوں کے لیے 25 ہزار قبرستان تیار کریں گے۔ اس خبر سے عوام میں بے چینی اور شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔

کیا ایران بھی پاک سعودیہ دفاعی معاہدے میں شامل ہوسکتا ہے؟

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھی حالیہ مہینوں میں بارہا یمن سے متعلق مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ کسی بھی فریق کی طرف سے شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتا ہے اور یمن کے مسئلے کا حل سیاسی مذاکرات اور سفارت کاری میں دیکھتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ سعودی عرب کی سالمیت اور خودمختاری کے دفاع میں اخلاقی اور سیاسی حمایت فراہم کرے گی، تاہم یمن کی جنگ میں براہِ راست شمولیت پاکستان کی پالیسی کا حصہ نہیں۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ماضی میں 2015ء میں جب سعودی عرب نے یمن میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا تو پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد منظور کر کے ملک کو اس جنگ سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اگرچہ سعودی عرب نے اس فیصلے پر ناراضی کا اظہار کیا تھا، لیکن پاکستان کی پالیسی کا محور یہی رہا کہ یمنی تنازع میں براہِ راست عسکری کردار سے اجتناب کیا جائے۔
یوں اس خبر کا مجموعی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ “حوثیوں کے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ” کی بازگشت حقیقت سے زیادہ افواہ اور مبالغہ ہے۔

فی الحال نہ حوثیوں کی طرف سے ایسا کوئی باضابطہ اعلان سامنے آیا ہے اور نہ ہی پاکستان کو براہِ راست ان کی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں اس طرح کی خبریں زیادہ تر سوشل میڈیا کی سنسنی خیزی کا نتیجہ ہیں، جن کا مقصد سیاسی یا عوامی جذبات کو ابھارنا یا سوشل میڈیا پر ریٹنگ کا حصول ہو سکتا ہے۔

Related Posts