پاک افغان سرحد پر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان باڑ لگانے کے مسئلے پر اختلاف سامنے آیا ہے، افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ طالبان فورسز نے پاکستانی فوج کو مشرقی صوبے ننگرہار کے ساتھ ایک ”غیر قانونی” سرحدی باڑ لگانے سے روک دیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ طالبان کے سپاہیوں نے خاردار تاروں کے رول پکڑ ہوئے ہیں اور افغانستان کے ایک سینیئر اہلکار نے کچھ فاصلے پر سیکیورٹی چوکیوں پر تعینات پاکستانی فوجیوں سے کہا ہے کہ وہ دوبارہ سرحد پر باڑ لگانے کی کوشش نہ کریں۔ ایک پاکستانی اہلکار نے بھی اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے۔
اہلکار، جس نے پس منظر میں صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کی، انہوں نے کہا کہ سینئر سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ باڑ لگانے سے متعلق مسائل کو مستقبل میں باہمی معاہدے کے ذریعے نمٹا جائے گا۔ تاہم اہلکار نے یہ واضح نہیں کیا کہ پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کس سطح پر ہوئے۔
طالبان حکومت اور عالمی برادری کے درمیان ثالثی کی ہماری کوششیں شاید اس مسئلے کو ایک بار اور ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے کافی نہ ہوں، جیسا کہ افغان طالبان کے دفاعی ترجمان کی زبان سے واضح ہے۔ باڑ کو ”غیر قانونی” قرار دینا حکومت کے مؤقف کو مکمل طور پر رد کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔
باڑ لگانا پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے کیونکہ افغان نوآبادیاتی دور میں سرحدی حد بندی پر تنازعہ کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان کا اصرار ہے کہ دونوں ممالک کو الگ کرنے والی لائن، جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے، ایک درست بین الاقوامی سرحد ہے۔
پاکستان 2017 سے افغانستان کے ساتھ 2600 کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگا رہا ہے تاکہ افغانستان کی شدید مخالفت کے باوجود دہشت گردوں کی دراندازی اور اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔ باڑ کی تعمیر کے علاوہ، اس منصوبے میں سرحدی چوکیوں کی تعمیر اور سرحد کی حفاظت کرنے والے نیم فوجی دستے فرنٹیئر کور کے نئے ونگز کا قیام بھی شامل ہے۔
سرحد کی حیثیت پر اختلافات اس قدر شدید رہے ہیں کہ ماضی میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان متعدد جان لیوا جھڑپیں ہوئیں۔ مزید برآں، باڑ لگانے والی پاکستانی تعمیراتی ٹیموں نے متعدد مواقع پر دہشت گردوں کے سرحد پار حملوں کا سامنا کیا ہے۔
اسلام آباد کو امید تھی کہ افغان طالبان دیرینہ معاملے کو حل کرنے میں مدد کریں گے۔ تاہم، ایسا نہیں ہوا۔ 1996 سے 2001 تک جب طالبان افغانستان پر کنٹرول میں تھے تو طالبان نے اس مسئلے کو حل نہیں کیا تھا اور اس بار بھی اس کے حل کے لیے اب تک کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے۔