ایک ایسے وقت میں جب پورے ملک کی توجہ پنجاب میں ”سیاسی ڈرامے“ کی طرف مرکوز تھی، دہشت گردوں نے پاکستان کے دارالحکومت کو نشانہ بنایا۔ جمعے کو اسلام آباد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں کم از کم ایک پولیس اہلکار شہید جب کہ 10 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق آئی سی ٹی اہلکاروں نے I-10/4 سیکٹر کی اسٹریٹ 31 کے قریب چیکنگ کے دوران ایک مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی، جس پر گاڑی کے اندر موجود خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے انکشاف کیا ہے کہ دہشت گردوں کا ”ہائی ویلیو ٹارگٹ“ پر حملہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، وزیراعظم ہاؤس، پی ٹی وی اور ہائی کورٹس جیسی اہم عمارت میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر گاڑی نہ روکی جاتی تو بہت زیادہ جانی نقصان ہوسکتا تھا۔ وزیرداخلہ نے اعتراف کیا کہ یہ ملک کے لیے شرم کی بات ہوتی اگر یہ حملہ کسی بڑی عمارت یا ریڈ زون کے علاقے میں ہوتا۔
اگرچہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ابھی تک اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم بعض باخبر صحافیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس دھماکے کے پیچھے ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے کیونکہ کالعدم تنظیم بنوں آپریشن کے ردعمل اور ریاست کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے دارالحکومت اسلام آباد میں کسی اہم ہدف پر حملہ کرنا چاہتی تھی۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے گزشتہ ماہ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد، ملک میں دہشت گردانہ حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے قبل کالعدم گروپ نے پختونخوا اور بلوچستان صوبوں کو بم حملوں اور خودکش دھماکوں سے نشانہ بنایا اور اب ان کے حملوں کا دائرہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک پھیلا دیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جبکہ طالبان انتظامیہ ان کی مکمل حمایت کر رہی ہے کیونکہ دونوں کی سوچ ایک ہے لیکن بدقسمتی سے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بہت نرم ہے۔ اگر پاکستان نے اس پالیسی کو فوری طور پر تبدیل نہ کیا تو خدشہ ہے کہ دہشت گردی کی آگ ماضی کی طرح ایک بار پھر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔