سی پیک میں تاخیراور خدشات، منصوبے کا مستقبل کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اقتصادی راہداری (سی پیک) پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے،راہداری چین کی اکیسویں صدی میں شاہراہ ریشم میں توسیع ہے۔

موجودہ دور حکومت میں سی پیک پر کام میں رکاوٹیں دیکھی گئیں تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ سی پیک اتھارٹی چینی سرمایہ کاروں کے تحفظات دور کررہی ہے، سی پیک میں تاخیر کےمسائل کو حل کر دیا ہے۔

منصوبہ ہے کیا؟

سی پیک بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کا مجموعہ ہے جو 2013 سے شروع ہوئے اور اب پورے پاکستان میں زیر تعمیر ہیں۔ سی پیک کا مقصد پاکستان کے مطلوبہ بنیادی ڈھانچے کو تیزی سے اپ گریڈ کرنا اور جدید ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورکس، توانائی کے متعدد منصوبوں اور خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر کے ذریعے اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔

13 نومبر 2016 کوسی پیک جزوی طور پر فعال ہو گیا تھاجب چینی کارگو کو افریقہ اور مغربی ایشیا کے لیے سمندری کھیپ کے لیے گوادر پورٹ تک لے جایا گیا، جبکہ کچھ بڑے پاور پراجیکٹس 2017 کے آخر تک شروع ہو ئے۔

پاکستان میں 2021 تک کورونا کے الرٹ کے بعد سی پیک پرکام کرنے والے کارکنوں کو درپیش سیکورٹی خدشات اور شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں کیے جانے والے احتجاج کی وجہ سے کام سے روک دیا گیا ہے۔

سی پیک کا پس منظر

چین کی سرحد سے بحیرہ عرب پر پاکستان کی گہرے پانی کی بندرگاہوں تک ایک راہداری کے منصوبے 1950 کی دہائی کے ہیں اور قراقرم ہائی وے کی تعمیر 1959 میں شروع ہوئی تھی۔

گوادر میں پاکستان کی گہرے پانی کی بندرگاہ میں چین کی دلچسپی 2002 میں اس وقت سے ابھری جب چین نے گوادر بندرگاہ کی تعمیر شروع کی جو 2006 میں مکمل ہوئی۔

اس کے بعد سابق صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف کے اقتدار چھوڑنے کے بعد پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں پاکستان اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے گوادر پورٹ کی توسیع روک دی گئی۔

گوادر شہر میں منصوبے

سی پیک کے تحت چین گوادر میں ایک نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر کے لیے پاکستان کو 230 ملین ڈالر دے گا۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے 230 ملین ڈالر کے نئے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کے لیے 4000 ایکڑ رقبہ مختص کیا ہے اس منصوبے کے اخراجات مکمل طور پر چینی حکومت کی گرانٹ سے ادا کیے جائیں گے۔ پاکستان قرض ادا کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔

صنعتی تعاون

رواں ماہ پاکستان اور چین نے سی پیک کے تحت صنعتی تعاون کے فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔معاہدے پر وزیر مملکت اور چیئرمین سر مایہ کاری بورڈ محمد اظفر احسن اور چیئرمین نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن ہی لی فنگ نے دستخط کیے ہیں۔

صنعتی تعاون پر مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کا مقصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، صنعت کاری اور اقتصادی زونز کی ترقی کو فروغ دینا اور عوامی اور نجی شعبے دونوں میں منصوبوں کی شروعات، منصوبہ بندی، عمل درآمد اور نگرانی کرنا ہے۔

جے ڈبلیو جی کے تحت چین کے ساتھ پاکستان میں پیداواری ، صنعتی میدان، برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔2018 میں سی پیک کے 8 ویں جے سی سی اجلاس میں دونوں فریقوں نے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے جس میں صنعتی تعاون کے دائرہ کار کے تحت فریقین کے درمیان مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیاگیا۔

سی پیک اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جس میں خصوصی اقتصادی زونز کی ترقی اور صنعت کاری کوفروغ دینے کے علاوہ توانائی اور بنیادی ڈھانچہ جات بھی شامل ہیں۔ سر مایہ کاری بورڈ کی مسلسل کوششوں سے دونوں فریقین نے 2020 میں موجودہ مفاہمت نامے کو ایک فریم ورک معاہدے میں تبدیل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

منصوبے کا مستقبل

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کاکہنا ہے کہ پاکستان اور چین سی پیک کے دوسرے مرحلے کے منصوبوں کی جلد تکمیل کے لئے پرعزم ہیں، وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران بہت جامع نشستیں ہوئیں،چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ہونے والی ملاقات انتہائی جامع نوعیت کی تھی۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک امور خالد منصور نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری دوسرے مرحلے کے تحت چین 7 شعبوں میں اربوں ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کرے گا، سی پیک اتھارٹی چینی سرمایہ کاروں کے تحفظات دور کررہی ہے، سی پیک میں تاخیر کےمسائل کو حل کر دیا ہے۔

وزیراعظم نے سی پیک میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو یقین دہانی کرائی کہ سی پیک ون ونڈو آپریشن اتھارٹی کے پیچھے وہ کھڑے ہیں، وزیراعظم آفس بھی چینی سرمایہ کاروں کے مسائل کے حل میں مدد کرے گا۔