ہم کورونا وائرس وبائی امراض کے سائے میں دوسرا رمضان المبارک دیکھ رہے ہیں، کورونا کی تیسری لہر میں شدت آچکی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر کو نافذ کرانے کے لئے جدوجہد کی جارہی ہے۔
اعدادوشمار کے حساب سے دیکھا جائے ملک کے شہری علاقوں میں صورتحال تشویش ناک ہوچکی ہے، ہم نے اعدادوشمار کے حساب سے 750,000 کے سنگ میل کو عبور کرلیا ہے، اور صرف گزشتہ ہفتے 16,000 کیسز کا اضافہ ہوا ہے، ایک ہفتہ کے دوران روزانہ کی بنیاد پر100 سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ جبکہ عالمی اموات کی تعداد 30 لاکھ کو عبور کر چکی ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک اسپتال میں بستروں اور آکسیجن کی کمی کا سامنا کرنے کے بحران سے دوچار ہے۔ مگراس کے باوجود، ہم نے حفاظتی احتیاطی تدابیرپر عمل درآمد کرنے کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے۔
رمضان کا مہینہ اس امر کا تعین کرنے میں بہت اہم ہوگا کہ ہم کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز پر قابو پاسکتے ہیں یا نہیں؟ اگرچہ حکومت نے ہفتے میں دودن بازاروں کو بند کرنے کی پابندیاں عائد کردی ہیں، مگر شہریوں کی جانب سے ایس او پیز کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں، کاروبار کے اوقات کار کم کردیئے گئے ہیں، جس کے باعث بازاروں میں رش بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، لوگ صرف ماسک پہننے جیسے معمولی احتیاطی تدابیر کے ساتھ بازاروں اور کاروباری مراکز کا رخ کرتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ قوم لاک ڈاؤن کی متحمل نہیں ہے، جو بالکل صحیح بات ہے، تاہم، حکومت نے مذہبی واجبات کی ادائیگی کے لئے رمضان المبارک کے دوران مساجد کو کھلا رہنے کی اجازت دی ہے، مگر عبادت گاہوں میں غیر معمولی رش اور عدم احتیاط کے باعث بھی کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے، اس کے لئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
حکومت کی جانب سے شہریوں کو کورونا ویکسینیشن کا عمل بھی انتہائی سست روی کا شکار ہے، تاہم پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کے شہریوں کے لئے ویکسینیشن کی اجازت دی ہے، مگر وہ بھی ویکسین کے حصول میں ناکامی کا سامنا کررہے ہیں،انڈیا سے جو ویکسین پاکستان آنا تھی اس میں تاخیر ہوئی ہے، کیونکہ ہندوستان نے اپنی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر اس کی بر آمدات بند کردی ہیں۔
پاکستان کو سال کے آخر تک 40 سے 50 ملین افراد کو ویکسینیشن کرنے کی ضرورت ہے، مگر صرف 1.1 ملین ویکسین حاصل کی گئی ہے، حکومت نے ویکسینیشن کے سلسلے میں عوام کی حوصلہ افزائی کے لئے آگاہی مہم بھی چلائی ہے،اس کے باوجود بھی اگر ہم مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے تو آنے والی سردیوں کے موسم میں ایک اور سنگین لہر کا سامنا ہوسکتا ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیا گیا تو حالات مزید بھی خراب ہوسکتے ہیں، اگرچہ رمضان برکتوں کا مہینہ ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ابھی بھی ایک بحران کی زد میں ہیں اور ہمیں اپنی اور اپنی آس پاس کی زندگیوں کی حفاظت کرنی چاہئے۔