طعنے کا اصل حقدار کون ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا کے معاملات میں انسان کے پاس خیر کی کنجی یہ ہے کہ وہ چیزوں کو علم کی بنیاد پر پرکھتا ہے۔ جو چیز علمی لحاظ سے درست ہو اسے ٹھیک مانتا ہے اور جو علمی لحاظ سے غلط ہو اسے مسترد کردیتا ہے، مگر علم کے معاملے میں ایک مشکل بھی ہے۔

جب ہم مطلقا “علم” کہتے ہیں تو اس سے انسانی علم مراد ہوتا ہے جو اس کی عقل کی پیداوار ہے۔ اب عقل کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ آج ایک چیز کو درست بتانے پر مصر ہوتی ہے تو چند روز بعد اسی چیز کو غلط ثابت کرنے پر تل جاتی ہے۔ ایک انسان کی عقل نے اپنا کل زور لگا کر ایک چیز کو درست بتا دیا۔ دلائل بھی بہت مضبوط تھے۔ سننے والوں نے واہ واہ بھی کردی لیکن کچھ دن بعد ایک اور شخص آیا جس کی عقل پچھلے شخص سے بھی زیادہ رسائی رکھتی تھی۔ جب اس نے اپنی عقل سے دلائل دینے شروع کئے تو اسی پچھلی “معقول بات” کو غیر معقول ثابت کردیا۔ کھڑے کھڑے معقول بدل گیا اور یہی انسانی سماج اور علم کے ارتقاء کا اصل محرک ہے۔ آج کی تاریخ میں لگ بھگ پورا یونانی فلسفہ غیر معقول ہوچکا کہ نہیں؟ اسی کو تو علمی ترقی کہتے ہیں کہ گزشتہ دن کا معقول آنے والے روز کا غیر معقول ہے۔

آج ہم سب جن چیزوں کو معقول بتا رہے ہیں، کوئی گارنٹی نہیں کہ 100 سال بعد والا انسان بھی انہیں معقول ہی تسلیم کرے۔ آنے والے زمانے کا انسان زیادہ ترقی یافتہ ہوگا سو وہ بھی حسب روایت ہمارے “معقول” کو غیر معقول ثابت کردے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو حتمی ہو؟ جس کی صداقت سدا بہار ہو؟ جو آج بھی درست ہو اور 100 سال بعد بھی؟ جی ہاں! ہم مسلمانوں کے پاس ایسی چیز ہے۔ اسے وحی کہتے ہیں۔ یعنی علم الہی۔

ترجمہ: لوگوں کے لیے نفسانی خواہشوں کی محبت مزین کردی گئی ہے، جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان لگائے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی ہیں۔ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔ (14) کہہ دے کیا میں تمھیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جو لوگ متقی بنے ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور نہایت پاک صاف بیویاں اور اللہ کی جانب سے عظیم خوشنودی ہے اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والاہے۔(15)
(آل عمران آیت 14۔ 15)

پہلی آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی کچھ چیزوں کا ذکر فرما رہے ہیں، اور ان سے متعلق بتا رہے ہیں کہ یہ ہم نے لوگوں کے لئے سجا دی ہیں۔ کسی چیز کو سجانے کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ فقط یہی کہ دیکھنے والا اس کی طرف کشش محسوس کرے۔ کشش کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ مثبت نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگلا اس کے حصول یا کاپی پیسٹ کی جائز کوشش کرتا ہے اور منفی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسی کو قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو دوسرے کے پاس دیکھی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا کے انسان قرآن کی ذکر کی ہوئی ان چیزوں کی طرف کشش بھی رکھتے ہیں اور ان کے حصول کی جائز و ناجائز دونوں طرح کی کوششیں بھی ہمیں نظر آتی ہیں۔

اسی آیت نے اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ عورت ذات ہر وقت سجنے سنورنے پر فوکسڈ کیوں رہتی ہے؟ اس کے میک اپ کے خرچے آسمان سے باتیں کیوں کرتے ہیں؟ اس میں اپنے آپ کو “شو” کرنے کی جبلت کیوں پائی جاتی ہے؟ وہ چست لباس اور کھلے گلے کا رجحان کیوں رکھتی ہے؟ آل عمران کی اس آیت میں اللہ نے بتا دیا کہ یہ ہماری “اسکیم” ہے۔

اب آپ کہیں گے کہ یہ تو عجیب بات ہوگئی کہ اللہ نے دانہ ڈال دیا اور پھر یہ بھی پوچھتا ہے کہ چگا کیوں؟ کھایا کیوں؟ تو یہی تو خدا کی اسکیم ہے۔ یہی تو وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ بندہ جبلت پر چلتا ہے یا میرے حکم پر؟ غور نہیں کرتے انسان نے پہلی خطا کیا کی تھی؟ درخت اگا دیا تھا مگر آدم علیہ السلام کو حکم دیا کہ کھانا نہیں ہے۔ انہوں کھا لیا تو نتیجہ یہ کہ پیغمبر ہونے کا بھی لحاظ نہیں ہوا۔ اتار دیا زمین پر۔ ساتھ ہی کہہ دیا کہ میرے آرڈرز آتے رہیں گے جو انہیں مانے گا وہ سرخرو ہوگا، جو نہیں مانے گا نقصان اٹھائے گا۔

ایک اہم چیز یہ کہ اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی ناجائز عورت، ناجائز اولاد، قبضہ کی ہوئی کھیتی، حرام کے سونا چاندی کی بات نہیں فرما رہے۔ وہ تو ہیں ہی غلط۔ جائز کی بات ہو رہی ہے۔ یہ چیزیں اگر جائز طور پر میسر ہیں اور اللہ سے غافل کر رہی ہیں۔ آخرت کی فکر بھلا رہی ہیں تو “فتنہ” ہیں، چنانچہ اسی آیت کے آخری حصے میں اللہ سبحانہ و تعالی خبردار کر رہے ہیں کہ بھئی دیکھو یہ حسین زوجہ، جوان اولاد، جائیداد، سونا چاندی بس اسی دنیا تک ہیں۔ یہ یہیں رہ جائیں گی۔ یعنی یہ سب عارضی ہیں۔

جب یہ عارضی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مقصد اصلی نہیں بن سکتیں۔ مقصد اصلی تو وہی ہوگا جو دائمی ہو۔ ایک آدمی آپ سے کہتا ہے، بھئی یہ کار لے لیجئے، دس دن چلایئے اس کے بعد واپس کر دیجئے، دوسرا آدمی کہتا ہے، بھئی یہ میری کار لے لیجئے، آپ کی ہوگئی، واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔ بتایئے آپ کونسی لیں گے؟ دس دن والی یا وہ جو اس محدود سی عمر کے لئے دائمی نظر آتی ہے؟ ظاہر ہے دائمی ہی ترجیح بنے گی۔ سو اگلی آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی یہی بات سمجھا رہے ہیں۔ اپنے رسول ﷺ سے فرما رہے ہیں کہ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ یہ جو پہلی آیت میں مذکور عارضی چیزیں ہیں ان کے مقابلے میں دائمی چیز تم لوگوں کو بتاؤں؟ دائمی چیز تقوی ہے۔

اب یہ سمجھنا چاہئے کہ تقوی کیا ہے؟ سادہ زبان میں تقوی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مان کر چلنے کو کہتے ہیں۔ عورتیں، اولاد، سونا، چاندی، اور کھیتی سجا دیں مگر آڈر دے دیا کہ انہیں ناجائز تو حاصل ہی نہیں کرسکتے۔ جائز حاصل کرسکتے ہو مگر سمجھنا انہیں عارضی ہوگا اور فوکس دائمی چیز پر رکھنا ہوگا۔ یعنی تقوی اختیار کرنا ہے۔ اللہ کی رضا کا حصول آپ کا مقصد اصلی ہونا چاہئے اور ساتھ ہی خوشخبری دیدی کہ دیکھو یہ جن چیزوں کو ہم عارضی بتا کر آپ کو اس سے روک رہے ہیں، ان کی ٹینشن نہیں لینی۔ اگر آپ ہماری مان کر چلے تو یہی چیزیں اس سے بھی اعلی درجے کی ہم آپ کو آخرت میں دیں گے۔ وہاں پابندی بھی کوئی نہ ہوگی اور وہ سب ہوں گی بھی دائمی۔ کوئی روک ٹوک نہ ہوگی۔ وہ آخرت والی زندگی ہے ہی عیاشی کے لئے۔ وہاں بس تم ہوگے اور تمہاری خواہشیں۔

اب ایک عجیب بات دیکھئے۔ جب دین کا کوئی اسکالر اللہ کی ان اخروی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے تو ہمارا لبرل اسے طعنہ بنا لیتا ہے، مثلا حور کا تماشا لگایا جاتا ہے کہ نہیں؟ اور طعنہ دیا کیا جاتا ہے؟ یہی کہ مولوی حور میں انٹرسٹڈ ہے اور یہ کہہ کون رہا ہے؟ وہ جو دوسروں کی بہن بیٹی سے بلا نکاح تعلق قائم کرنے میں انٹرسٹڈ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ایسا کرنے سے منع فرماتے ہیں، مگر وہ کہتا ہے نہیں، میں نے اللہ کے حکم پر نہیں، گورے کے کلچر پر چلنا ہے۔ وہ بلا نکاح تعلق قائم کرتا ہے بس باہمی رضامندی درکار ہوتی ہے۔ مجھے بھی وہی کرنا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہی کہ جنسی تعلق میں دونوں انٹرسٹڈ ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک کہتا ہے میں نے حکم الہی کے مطابق آخرت میں یہ شوق پورے کرنے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے، نہیں میں تو یہیں دوسروں کی بہن بیٹیاں خراب کرنی ہیں۔ ذرا انصاف سے بتایئے ان میں سے کون بہتر ہے؟ طعنے کا اصل حقدار کون ہے؟

Related Posts