برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ شروع ہو گئی ہے، کئی دہائیوں بعد اس انتخابی عمل کو اہم ترین قرار دیا جا رہا ہے۔ کئی اہم موضوعات کے علاوہ اس مرتبہ بریگزٹ کا معاملہ بھی ووٹروں کی دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ برطانیہ میں 2015کے بعد یہ چوتھے الیکشن ہیں۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے معاملے پر برطانوی پارلیمان میں متفقہ حکمت عملی پر اتفاق نہ ہو نے کی وجہ سے ایک بحرانی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
وزیراعظم بورس جانس نے ملک میں جاری بحران کے خاتمے کیلئے نئے انتخابات کا اعلان کیا تھا جس نے برطانوی معیشت کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ،اگرچہ اس الیکشن میں ہیلتھ کیئر اور ماحولیات جیسے بڑے اور اہم موضوعات بھی عوامی دلچسپی کا باعث ہیں لیکن بریگزٹ کا معاملہ ان پر حاوی ہی رہے گا۔
یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے معاملے پر مہینوں سے ملک میں جاری ڈیڈ لاک کے بعد برطانوی دارالعوام نے قبل از وقت عام انتخابات کے بل کو منظور کرلیا تھا تاہم یہ عام انتخابات برطانیہ کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہونے جا رہے ہیںجس کے پوری دنیا پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
وزیر اعظم بورس جانسن ایک سخت مقابلے میں معمولی برتری حاصل کیے ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے بریگزٹ کے منصوبے پر عمل کر سکتے ہیں۔وزیر اعظم بورس جانسن فتح حاصل کرتے ہوئے کنزرویٹو جماعت کی وہ اکثریت واپس حاصل کر سکتے ہیں جو ان کی جماعت 2017 میں کھو چکی ہے۔ سٹے باز اور انتخابات پر گہری نگاہ رکھنے والوں کے مطابق اس بات کے کافی امکانات ہیں۔
وزیر اعظم بورس جانسن کے نزدیک جن کا تمام تر زور بریگزٹ پررہا ہے ، یہ انتخابات ان کی جیت کی صورت میں برطانیہ کی یورپ سے آزادی کی نوید ثابت ہوں گے کہ و ہ اپنی اکثریت کی بنیاد پر اگلے سال اکتیس جنوری تک یورپ کے بندھنوں سے آزاد ہو جائیں گے۔
بورس جانس کا مقابلہ لیبر پارٹی کے جیریمی کوربن سے ہے اورلیبر پارٹی کی جیت کی صورت میں بورس جانسن کی بریگزٹ کی خواہش دم توڑ دے گی کیونکہ لیبر پارٹی یہ عہدکر چکی ہے کہ وہ انتخابات جیتنے کے بعد یورپ سے علحدگی کے بارے میں یورپی یونین سے ایسا سمجھوتہ کرے گی کہ یورپ سے اقتصادی تعلقات برقرار رہیں اور جو سمجھوتہ بھی طے پائے گا اس پر عوام کی منظوری حاصل کرنے کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے گا۔
لیبر رہنما جیریمی کوربن تمام اعدادوشمار کے برخلاف اپ سیٹ کرتے ہوئے اکثریت حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ اہم کاروباری شعبوں کو دوبارہ سے قومیا سکتے ہیں جن میں ریلوے اور توانائی کے شعبے شامل ہیں۔ وہ عوام پر پیسہ خرچ کرنے کی بھی ایک بڑی کوشش کریں گے۔
اگر جیریمی کوربن جیتتے ہیں تو برطانیہ یورپی یونین کا حصہ رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں ایک بار پھر ووٹنگ کرے گا جس کو ’سافٹر‘ بریگزٹ کہا جا رہا ہے یا یورپی یونین کے ساتھ رہنے کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔