سیاست میں اقربا پروری کے ثمرات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملکی سیاست میں اقربا پروری یعنی رشتہ داروں اور نسل در نسل وزیر اعظم، صدر اور دیگر عہدوں پر براجمان ہوتے چلے جانے کا قابلِ تعریف نظام بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے ترقی پذیر ملک پاکستان میں اقربا پروری کے فوائد عوام کو کوئی سمجھاتا نہیں ہے، اور تعلیم تو ہم نے اچھے طریقے سے کبھی حاصل ہی نہیں کی، اس لیے ہمیں اقرباپروری کھٹکتی ہے۔ آئیے ملکی سیاست پر اس عمل کے اہم اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

ملکِ خدادا پاکستان جیسے خوبصورت ملک میں اقربا پروری نقابل، یقین حد تک منفرد اور قابلِ قدر روایت بن چکی ہے۔ یہاں سیاسی خانوادے ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے جتھوں کے جتھے ایک ہی خاندان کی اجارہ داری کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ باپ صدرِ مملکت ہوا کرتا تھا، بیٹا وزیرِ خارجہ بن گیا اور اب وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار ہے۔

اسی طرح باپ کبھی وزیر اعظم تھا تو بیٹی وزارتِ عظمیٰ کی حقدار بنی اور پھر اس کا بیٹا بھی ملکی سیاست میں بڑی آسانی سے داخل ہوجاتا ہے۔

دراصل پاکستان میں سیاست بادشاہت ہی کی ایک قسم ہے جس میں اگر ہم جنگل پر راج کرنے والے شیر کی مثال سامنے رکھیں تو اس کا وارث سوائے چھوٹے شیرو کے اور کوئی نہیں ہوسکتا، سو اس نظام کی خوبصورتی اس کی سادگی میں پنہاں ہے۔ جب ہمارے پاس تیار جانشین موجود ہیں تو اس کیلئے تھکا دینے والے جمہوری نظام اور ووٹنگ کی کیا ضرورت ہے؟

غور کیجئے تو سیاست میں اقربا پروری اتنا خوبصورت معاملہ ہے کہ سیاست مختلف خانوادوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے جو برسہا برس سے ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہیں۔ اگر کچھ بھوکے ننگے غریب ان سیاستدانوں کے درمیان کھانے کی میز پر آ کر بیٹھ جائیں گے تو بے چارے کھائیں گے کیا اور بات کس سے کریں گے؟

کھانے کی میز دراصل ایک کاروباری اجتماع ہے جہاں چھوٹے اور ننھے منے سیاستدان اپنے والد کے ساتھ ساتھ چچا، پھوپھا تایا اور والد کے دوست احباب سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ یہ سبزی یا پھل فروش نہیں بلکہ وعدے اور منشور بیچنے والے بڑے بیوپاری ہیں اور آپس میں اپنی ہی طرح کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔

دلچپسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ 75سال میں پاکستان اقربا پروری کے تحت پالیسیوں کے بے مثال تسلسل کے ساتھ جس نہج پر آپہنچا ہے، وہ اقربا پروری کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ اگر ملک کے کسی سیاستدان نے تعلیم کو پروان چڑھنے دیا ہوتا تو آج ہمارا ملک جمہوریت کے حقیقی راستے پر چل کر بھارت کی طرح تنزلی کا شکار ہوتا، سائنسی ترقی تو ہمارے پاس بھی نہیں پھٹک سکتی تھی۔

راقم الحروف جس سائنسی ترقی کی بات کر رہا ہے، وہ قارئین کو شاید سمجھ میں نہ آسکے، یہاں ایسا محکمۂ موسمیات پایا جاتا ہے جو بارش سے پہلے ہی یہ بتادیتا ہے کہ آج مطلع خشک رہے گا۔ طوفان آنے سے قبل ہی ہلکی پھلکی ہواؤں کی پیشگوئی کردی جاتی ہے تاکہ پاکستان کے عوام زیادہ پریشان نہ ہوں۔

اسی طرح ہمارے ہاں ایسے ایسے عظیم سائنسدان پیدا ہوئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر ارسطو بھی شرما جائے اور افلاطون کو بھی شرم آجائے جو دلیل کی بجائے رٹی رٹائی کتابوں پر یقین رکھتے ہیں، اختراع اور ایجاد تو ہمارے سائنسدانوں کیلئے کسی شرمناک بات سے کم نہیں۔

بھلا تبدیلی اور ترقی کی ضرورت ہی کسے ہے جب ہم استحکام اور پیشن گوئی پر چلنے والا ملک بن چکے ہیں۔ دہائیوں کے سیاسی تجربے سے حاصل ہونے والی دانش کو نظر انداز کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ یوں پاکستان بھی یہ یقینی بناتا ہے کہ اس کے سیاستدانوں کی انمول حکمتِ عملیاں نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں۔ جب صدیوں سے آزمودہ طریقے بہت اچھے چل رہے ہیں تو نوجوانوں کے نئے آئیڈیاز اور اختراعات پر عملدرآمد کی ضرورت ہی کیا ہے؟

جائیدادوں پر وصیت اور قانونی لڑائیاں تو بھول ہی جائیں پاکستان میں سیاسی طاقت ہی حتمی وراثت ہے جس کے بہت سے فوائد ہوا کرتے ہیں۔ سیاسی خاندان اپنی دولت، روابط اور اثر رسوخ ایک نسل سے دوسری نسل تک بڑی آسانی سے منتقل کرسکتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ یوں اشرافیہ کا ایک حکمران طبقہ لاٹری جیتنے کی طرح ایک کے بعد ایک کو اقتدار دیتا چلا جاتا ہے۔ اس میں غریبوں کا کوئی کردار نہیں کیونکہ حکمرانی تو ان کا پیدائشی حق ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اقربا پروری پاکستان کے پرجوش نوجوانوں کی زندگی کو بہت آسان بنا چکی ہے۔ عوام کو کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے کیلئے طویل جدوجہد کرنی ہی نہیں ہے بلکہ کامیابی کی کنجی صرف یہی ہے کہ آپ کسی درست اور نامی گرامی سیاستدان خاندان میں پیدا ہوجائیں، اور بس۔ ملازمت کے مسابقتی انٹرویوز، سخت امتحان اور عملی تجربات سے گزرنے کا جھنجھٹ کون اٹھائے؟ یہ ایک وقت بچانے والا شارٹ کٹ ہے جو نوجوان نسل کو خون پسینہ بہائے بغیر سیدھا اقتدار کے ایوانوں میں کود پڑنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

سیاست میں اقربا پروری عوام کو کبھی ختم نہ ہونے والی تفریح بھی فراہم کرتی ہے جس میں سیاسی ڈرامے، خاندانی جھگڑے اور اقتدار کی کشمکس ہر گھر کے شام کی گپ شپ کا اہم حصہ بن چکی ہے۔ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا رئیلٹی شو عوام کو نسل در نسل مسحور کرتا چلا جارہا ہے جس پر بات کرنے کیلئے عوام کے پاس وقت ہی وقت ہے۔

اگرچہ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں اقربا پروری کو منفی سمجھا جاتا ہے تاہم پاکستان نے اس رجحان کو مثبت انداز میں دیکھنے کا قومی رجحان پیدا کر لیا ہے۔ ہم ایک ایسی اسلامی جمہوریہ ہیں جس میں اسلام اور جمہوریہ دونوں سے زیادہ اقربا پروری پروان چڑھ رہی ہے اور خوب پھل پھول رہی ہے جسے عوام صبح و شام دعاؤں سے نوازتے ہیں۔

شاید یہ عوام کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج سیاسی خانوادوں کی تیسری نسل بھی مسلسل بغیر کوئی محنت کیے اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی پرانے طور طریقے بھول کر اقربا پروری کے زرّیں اصولوں کو اپنائیں تاکہ ہمارا بھی کچھ بھلا ہوسکے۔

Related Posts