یہ سچ ہے کہ چیزیں دن بہ دن مزید الجھن کا شکار ہوتی چلی جارہی ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کے زرمبادلہ کے ذخائر 7 بلین ڈالر سے نیچے گرنے سے مارکیٹ مزید بے چینی کا شکار ہے۔ہر ذی شعور حکومت کو مشورہ دے رہا ہے کہ اس موڑ پر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ز(آئی ایم ایف) پروگرام کے سلسلے میں صحیح راستے پر واپس آنا انتہائی ضروری ہے، ورنہ ملک ڈیفالٹ میں چلا جائے گا، تاہم حکومت اور اپوزیشن یہ سمجھے بغیر سیاست کرنے میں مصروف ہیں کہ صورتحال کتنی سنگین ہو چکی ہے۔
مسلسل قیاس آرائیوں کے درمیان پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے، بجائے اس کے کہ اس کی کچھ وضاحت کی جائے،وزیر اعظم شہباز شریف نے اس ہفتے بھی وہی بات دہرائی کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوگا، مگر اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت نے تباہی سے بچنے کے لیے کیا منصوبہ بنایا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس ساری صورتحال کا پاکستان تحریک انصاف کو ذمہ دار قرار دیا، اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر اعتماد نہیں کیا اور اس کی انتظامیہ کو قرض کی سخت شرائط قبول کرنے پر مجبور کیا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اس بات کی ضمانت دی کہ ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن وزیراعظم شریف کی یقین دہانیاں کافی نہیں ہیں۔ قیاس آرائیاں جاری رہنے کی وجوہات ہیں۔
اسلام آباد اور آئی ایم ایف کے درمیان کشیدگی کے باعث ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.7 بلین ڈالر کی چار سال کی کم ترین سطح پر آگئے ہیں۔ اس بات کی نشاندہی صرف پی ٹی آئی اور عمران خان ہی نہیں کررہے بلکہ ملک کے گرتے ہوئے زر مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی ایسی ہی وارننگ دیتے رہے ہیں۔
ہمیشہ سے یہ ہوتا چلا آیا ہے کہ ہر آنے والی حکومت نے دوسری حکومت کو خراب معیشت کا ذمہ دار ٹھہرایا،کہ انہیں وراثت میں خراب معیشت ملی، تاہم موجودہ خطرناک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، مسلم لیگ (ن) کو سستی پوائنٹ اسکورنگ کو روکنا ہوگا اور اپنے سیاسی سرمائے کی قیمت پر بھی وہ کرنا ہوگا جو درست ہے۔ کیونکہ یہ پی ڈی ایم میں موجود پارٹیاں ہی تھیں جنہوں نے اپنی مرضی سے پی ٹی آئی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار حاصل کیا۔
صورتحال مزید کشیدہ اور مزید تفرقہ انگیز ہوتی جارہی ہے اور حقیقی ثالثی کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت والی مخلوط حکومت کو متضاد معاشی پالیسیوں اور سیاسی طور پر طاقتور لابیوں کی حمایت کرنا ہوگی۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔
روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی، ایندھن اور بجلی کی بلند قیمتوں، بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کے سکڑنے اور بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے درمیان، وقت آگیا ہے کہ سیاسی عوامل معاشی پالیسیوں پر اثر انداز نہ ہونے دیئے جائیں، مزید برآں، حکومت کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا تاکہ ملکی معیشت کے وسیع تر مفاد میں سیاسی عدم استحکام کو ختم کیا جا سکے۔