حکومت نے ملک میں سینیٹ کے انتخابات قبل از وقت کروانے کا اعلان اپوزیشن کو بڑا جھٹکا دینے کے ساتھ ساتھ شو آف ہینڈکیلئے عدالت سے رجو ع کرنے کا اعلان کرکے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، پاکستان میں مارچ میں سینیٹ الیکشن کا انعقاد ہونا تھا ۔ حکومت کا کہنا ہے سینیٹ الیکشن میں شفافیت یقینی بنانے کیلئے شو آف ہینڈ کی تجویز دی ہے تاکہ ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکا جاسکے۔
سینیٹ آف پاکستان
پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی آدھی نشستوں پرہر3سال بعد الیکشن ہوتے ہیں اور ارکان کی مدت 6 سال ہوتی ہے،سینیٹ کے قیام کا مقصد تمام اکائیوں کو وفاق میں نمائندگی دینا ہے۔
ایوان بالا میں قومی اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی ہر جماعت کو نمائندگی دی جاتی ہے اور ہر صوبائی اسمبلی سے 14 ارکان ،8 فاٹا ،2 عام نشستیں، ایک خواتین کی نشست، ایک ٹیکنو کریٹ ،4 خواتین کا انتخاب ہر صوبائی اسمبلی سے،4 علما کا انتخاب ہر صوبائی اسمبلی سے جبکہ ہر صوبے سے ایک نشست اقلیت کیلئے مخصوص ہے ۔
ایوان بالا میں جماعتوں کی پوزیشن
سینیٹ میں مجموعی طور پر104 نشستیں ہیں جن میں سے 18 خواتین کیلئے مخصوص ہیں۔اس وقت ایوان بالا میں پاکستان پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے اور اگر سیٹوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی کے پاس 27، مسلم لیگ ن 26، متحدہ قومی موومنٹ 8، عوامی نیشنل پارٹی 7، تحریک انصاف 7، جمعیت علمائے اسلام (ف) 5، پاکستان مسلم لیگ (ق) 4، بلوچستان نیشنل پارٹی 4،نیشنل پارٹی 3، پختونخوا ملی عوامی پارٹی 3، جماعت اسلامی کے پاس ایک، 6 آزاد ارکان اور 2 نشستیں خالی ہیں۔
سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ
ایوان بالا کے ممبران کی مدت 6 سال ہوتی ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے 17 ارکان اپنی 6 سالہ آئینی مدت پوری کرکے 11مارچ میں ریٹائر ہونگے، 11 مارچ کو ریٹائرڈ ہونیوالے سینیٹرز میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 8‘ پی ٹی آئی 7‘ متحدہ قومی موونٹ کے 4‘ آزاد ارکان 4‘ جے یو آئی( ف) کے 2‘ این پی پی 2‘ جے آئی‘ این پی‘ بی این پی کے ایک ایک‘ بی اے پی کے 3 قانون ساز گھر چلے جائینگے اور ان کی جگہ نئے ممبران ایوان بالا کا حصہ بنیں گے۔
سینیٹ انتخابات میں پولنگ اورووٹنگ
سینیٹ کی 52 خالی نشستوں پر الیکشن کیلئے سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کیلئے پولنگ صوبائی اسمبلیوں میں ہوگی تاہم فاٹا اور اسلام آباد کی نشستوں کیلئے قومی اسمبلی میں پولنگ ہوگی۔
چاروں صوبوں کے صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوں گے لیکن اس کے ساتھ فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب، قومی اسمبلی میں موجود فاٹا کے 12 ارکان کریں گے جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کا انتخاب بشمول فاٹا اراکین پوری قومی اسمبلی کے ارکان کریں گے۔
ووٹنگ کا طریقہ کار
آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 کے مطابق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے علاوہ تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے کروانا لازمی ہے،انتخابات سے متعلق الیکشنز ایکٹ 2017 کی شق 6 میں بھی پارلیمان کے ایوان بالا کے چناؤ کے لیےخفیہ رائے شماری کا ذکر ہے جبکہ حکومت کو شو آف ہینڈ کیلئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔
ہارس ٹریڈنگ
سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر ملک میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا معاملہ پوری شدت سے کھل کر سامنے آتا ہے، سیاسی جماعتیں کھلے عام ایک دوسرے کے حامیوں کو مختلف تراغیب دیکر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا کہ مختلف جماعتوں نے صوبائی اسمبلیوں میں عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود سیٹیں جیت لیں اور گزشتہ سال چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن جماعتیں عددی اکثریت ہونے کے باوجود ناکام رہیں۔ سینیٹ میں حکومتی نشستوں پر 36 سینیٹرز موجود تھے تاہم چیئرمین سینیٹ کے حق میں 50 ووٹ آئے اور اپوزیشن 67 ممبران ہونے کے باوجود 50 ووٹ جمع کرسکی۔
شو آف ہینڈ
حکومت نے سینیٹ الیکشن میں دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخاب کروانے کا اعلان کیا ہے تاہم آئین میں اس کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے آئین میں ترمیم کی تیاری شروع کردی ہے جبکہ عدالت سے بھی رجوع کرنے کا عندیہ دیا تاہم اپوزیشن جماعتوں نے شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ کی شدید مخالفت کی ہے اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدر مملکت کسی عوامی اہمیت کے مسئلے پر رائے حاصل کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں ۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اس حوالے سے عدلیہ صرف رائے دے سکتی ہے لیکن قانون سازی کیلئے اپوزیشن کااتفاق رائے ضروری ہے۔
ہارس ٹریڈنگ کے خلاف اقدام
ملک میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہو یا یوسی کونسلر کا انتخاب، کبھی کسی پارٹی یا امیدوار نے خوشدلی سے نتائج قبول نہیں کئے، ہر جماعت الیکشن میں حصہ لینے کے باوجود انتخابی نظام سے نالاں رہتی ہے اور اب جبکہ حکومت نے ایک انتہائی اہم فیصلہ کیا ہے تو دھاندلی کے الزامات لگانے والوں کو اس فیصلے کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ ایوان بالا کے انتخاب میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے شو آف ہینڈ ایک بہترین اقدام ہوسکتا ہے، اس لئے سیاسی جماعتیں اجتماعی مفاد کو منظر رکھ کر مستقبل کیلئے ایک مثال قائم کریں کیونکہ اس عمل سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مدد ملے گی اور ہارس ٹریڈنگ کا وجود خود مٹ جائیگا۔