کیا امریکا واقعی افغان جنگ ہار رہا ہے ۔۔۔؟؟؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے افغانستان میں جاری جنگ سے متعلق امریکا کےجھوٹ کا پردہ چاک کردیا ۔امریکی اخبار نے خفیہ سرکاری دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ‘امریکاافغانستان میں جنگ ہار رہا ہے۔واشنگٹن پوسٹ نے 2 ہزار غیر مطبوعہ صفحات پر مشتمل رپورٹ کی تحقیقات میں کئی ماہ کا وقت صرف کیاجس میں سابق امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ سمیت 600 انٹرویوز اور ہزاروں یادداشتوں پر مبنی بیانات ہیں۔

انٹرویوز میں امریکی عہدے داروں نے یہ تسلیم کیا کہ ‘ان کی جنگ لڑنے کی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی اور یہ کہ افغانستان کو ایک جدید قوم میں ڈھالنے کی کوشش میں واشنگٹن نے بہت زیادہ رقم ضائع کی جو تقریبا ایک کھرب ڈالر بنتی ہے۔رپورٹ کے مطابق ‘ان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس اور کابل کے فوجی ہیڈکوارٹرز میں یہ عام بات تھی کہ اعداد و شمار کو مسخ کردیا جائے۔

واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکومت کی جنگ پر نظر رکھنے والے ادارے افغانستان کی تعمیر نو سے ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات جس میں 600 افراد کے انٹرویوز شامل ہیں اطلاعات کی آزادی کے قانون اور ود یگر وفاقی قوانین کے تحت حاصل کیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں بھی ایک امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ امریکی حکومت افغانستان میں 17 برس سے جاری جنگ کے حق میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسلسل ناقص اعداد و شمار پیش کررہی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’افغان جنگ مہنگی ترین جنگ ثابت ہورہی ہے، یہ رقم اس مارشل پلان سے زیادہ ہے جو جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپ کو ازسرنو تعمیر کرنے کے لیے درکار تھی۔

اکتوبر 2001 میں افغانستان میں امریکی آمد کے بعد سے 2017 کے بعد طالبان کو افغان علاقوں میں سب سے زیادہ کنٹرول حاصل ہوا۔امریکی حکومت کہتی ہے کہ طالبان کو افغانستان کے 44 فیصد اضلاع میں کنٹرول حاصل ہے جبکہ نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ جنگجوؤں کو 61 فیصد علاقے میں مکمل اثر ورسوخ حاصل ہے۔

خیال رہے یہ کہ معلومات ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں کہ جب امریکا طالبان کے ساتھ جنگ کے پرامن تصفیے کے لیے دوحہ میں مذاکرات کررہا ہے۔افغان طالبان اور امریکی ٹیم کے درمیان معطل ہونے والے امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے، فریقین نے قطر میں بیٹھ کر اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات کو وہی سے شروع کیا جائے جہاں اس کو معطل کیا گیا تھا۔

ان مذاکرات میں دو اہم باتیں زیرغور لائی جارہی ہیں، پہلی افغانستان میں سیزفائر،دوسری بین الافغانی مذاکرات۔ یہ دونوں اقدام نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں جاری بدامنی و دہشت گردی کی لہر کو ختم کرنے یا کم از کم کنٹرول کرنے کیلئے نہایت ضروری ہیں کیونکہ اگر افغانستان میں جنگ جاری رہتی ہے تو اس کا اثر پاکستان سمیت پورے خطے پر پڑے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نومبر 2020 میں نئے انتخابات سے پہلے افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد کم کرنے کے متمنی ہیں تاہم امریکااوردیگرمغربی ملکوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پیدا ہونیوالاخلا مغرب مخالف قوتیں پر کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا اور طالبان ملکر مسئلے کا حل نکالیں کیونکہ اس جنگ سے سب سے زیادہ نقصان افغان اورامریکی عوام کو ہو رہا ہے۔

Related Posts