فیس بک کو واٹس ایپ صارفین کی ذاتی معلومات دینے کا معاملہ، اصل حقائق سامنے آ گئے

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
فیس بک کو واٹس ایپ صارفین کی ذاتی معلومات دینے کا معاملہ، اصل حقائق سامنے آ گئے
فیس بک کو واٹس ایپ صارفین کی ذاتی معلومات دینے کا معاملہ، اصل حقائق سامنے آ گئے

سان فرانسسکو:پاکستان سمیت دنیا بھر میں پیغام رسانی کیلئے استعمال کی جانے والی سب سے بڑی موبائل ایپ واٹس ایپ کو صارفین کی ذاتی معلومات فیس بک کو فراہم کرنے کا اعلان مہنگا پڑ گیا جس پر واٹس ایپ انتظامیہ کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔

 واٹس ایپ نے حال ہی میں اپنی پرائیویسی پالیسی تبدیل کی ہے جس کے باعث اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں واٹس ایپ نے صارفین کو ایک پیغام ارسال کیا جس سے اتفاق نہ کرنے والے صارفین کو 9 فروری کے بعد نمبر بلاک کرنے کا عندیہ دیا گیا جس پر صارفین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

واٹس ایپ کا پیغام کیا تھا؟ 

مذکورہ پیغام میں واٹس ایپ کا کہنا تھا کہ کمپنی صارفین کا ڈیٹا فیس بک اور دیگر تھرڈ پارٹی کمپنیز کے ساتھ ساتھ کسی کے ساتھ بھی شیئر کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ واٹس ایپ نے صارفین سے یہ اجازت بھی طلب کی کہ صارفین تمام تر چیٹ، کالز، وائی فائی اور دیگر نمبرز اور خریدوفروخت سمیت ہر قسم کی معلومات تھرڈ پارٹی سے شیئر کرنے دیں۔

جیسے ہی سوشل میڈیا صارفین کو اس پیغام کی تفصیلات کا اندازہ ہوا، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر واٹس ایپ پر شدید تنقید شروع ہوگئی۔تقریباً 200 کروڑ صارفین نے واٹس ایپ چھوڑ کر متبادل ایپس کی نہ صرف تلاش شروع کردی بلکہ ٹیلیگرام اور سگنل نامی دیگر ایپس کی ڈاؤن لوڈنگ بھی شروع کردی، جس کے بعد واٹس ایپ انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں۔

متبادل ایپس کی ڈاؤن لوڈنگ پر واٹس ایپ کا ردِ عمل 

گزشتہ 2 روز سے سگنل اور ٹیلی گرام نامی ایپس کی ڈاؤن لوڈنگ میں بے حد اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے بعد واٹس ایپ سربراہ ول کیتھکارٹ کو نئی پرائیویسی پالیسی پر وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔ ول کیتھکارٹ نے کہا کہ نئی پرائیویسی پالیسی کے تحت صارفین کا ڈیٹا نہ تو کسی کو فراہم کریں گے نہ ہی صارفین نئی پالیسی سے کسی بھی طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔

سربراہ واٹس ایپ نے کہا کہ معلومات شیئر کرنے سے قبل اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ صارفین کے نجی پیغامات فیس بک تو کیا، خود واٹس ایپ انتظامیہ بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہوگی۔ صارفین کے نجی پیغامات اور وائس یا ویڈیو کالز کا ریکارڈ کسی بھی تھرڈ پارٹی کی دست برد سے محفوظ رہے گا۔

واٹس ایپ سربراہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں صارفین کو خدمات کی بہتر فراہمی اور بین الاقوامی سطح پر ٹیکنالوجی کے دفاع کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ 

اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ معلومات کیا ہوتی ہیں؟ 

غور کیجئے تو اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ معلومات کی بات کرکے واٹس ایپ کے سربراہ نے واٹس ایپ صارفین کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ معلومات شیئر تو کی جائیں گی لیکن وہ فیس بک اور واٹس ایپ دونوں پڑھ نہیں سکیں گے۔

تکنیکی اعتبار سے انکرپٹڈ معلومات سے مراد ایسی معلومات ہیں جنہیں صرف وہی پروگرام پڑھ سکتا ہے جس نے اسے انکرپٹ کیا ہو یعنی ایک خاص کوڈ کے ذریعے تحریر کیا ہو جسے کوئی بھی دوسرا پروگرام نہیں سمجھ سکتا، گویا واٹس ایپ کی انکرپٹ کی ہوئی معلومات صرف واٹس ایپ کی ایپ یا فیس بک ایپ پڑھ سکے گی، تاہم یہ معلومات فیس بک انتظامیہ اور واٹس ایپ انتظامیہ کی دست برد سے محفوظ ہوگی۔

تاہم سوشل میڈیا صارفین اِس وضاحت سے مطمئن نظر نہیں آتے، صارفین کا کہنا ہے کہ ذاتی معلومات کو شیئر کرنے کا خیال ہی ناقابلِ برداشت ہے کیونکہ ذاتی معلومات میں بعض اوقات صارفین کا ایسا ڈیٹا بھی شامل ہوتا ہے جسے وہ خود بھی اتنی صراحت سے نہیں سمجھ سکتے جیسا کہ کوئی سپر کمپیوٹر سمجھ سکتا ہے۔

مثال کے طور پر واٹس ایپ صارفین کسی دوست کو پیغام بھیجتے ہوئے کتنے الفاظ لکھ کر توقف کرتے ہیں۔ کون سے ایموجیز استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتتے ہیں اور کن پیغامات کو ارسال کرنے سے قبل متعدد بار سوچتے ہیں۔ یہ ساری معلومات واٹس ایپ اور فیس بک جیسی ایپس آسانی سے استعمال کرسکتی ہیں اور یہی آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ 

کون سی معلومات فیس بک کو دی جاسکتی ہیں؟ 

یہاں یہ سوال ضروری محسوس ہوتا ہے کہ واٹس ایپ نے ایسی کون سی معلومات فیس بک کو دینے کا اعلان کیا تھا جس پر سوشل میڈیا صارفین اور عوام الناس کی بڑی تعداد پریشان ہے اور نئی ایپس کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔

دراصل واٹس ایپ نے رواں ماہ کے دوران ہی یہ کہا تھا کہ ہم 8 فروری سے اپنے تقریباً 2 ارب صارفین کی معلومات مرکزی کمپنی فیس بک سے شیئر کرنے والے ہیں۔ ڈیٹا میں صارفین کے کوائف، رہائش، محلِ وقوع اور رابطہ نمبرز کی معلومات شامل ہوسکتی ہیں۔

نہ صرف مذکورہ معلومات بلکہ واٹس ایپ صارفین کے نام، آئی پی ایڈریس، فون ماڈل، آپریٹنگ سسٹم، بیٹری چارجنگ کی صورتحال، سگنلز، براؤزرز کی معلومات، موبائل نیٹ ورک، آئی ایس پی، ٹائم زون، زبان اور آئی ایم ای اے بھی معلوم کرکے فیس بک کے حوالے کرنے کی اجازت مانگ چکی ہے۔ 

ٹیلیگرام اور سگنل کیا ہیں؟ 

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں واٹس ایپ کو ہی سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ واٹس ایپ کو ٹکر دینے کیلئے ٹیلی گرام اور سگنل کے علاوہ بھی بے شمار دیگر ایپس موجود ہیں جن سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

مثال کے طور پر سگنل نامی ایپ گزشتہ چند برسوں سے صارفین میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ سگنل میں واٹس ایپ کی تمام تر خصوصیات نہ صرف موجود ہیں بلک یہ اینڈرائڈ کے ساتھ ساتھ آئی او ایس پلیٹ فارم پر بھی دستیاب ہے۔

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سگنل کی پرائیویسی پالیسی واٹس ایپ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ یہاں چیٹنگ کے اسکرین شاٹ تک نہیں لیے جاسکتے، نہ ہی یہ ایپ صارفین کی ذاتی معلومات جمع کرتی ہے۔

دوسری اہم ایپ ٹیلی گرام ہے جسے واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ٹیلی گرام واٹس ایپ کی طرز پر اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن سے صارفین کے پیغامات محفوظ بنانے پر یقین رکھتا ہے۔

ٹیلی گرام کے ذریعے معلومات، تحریری پیغامات، تصاویر، ویڈیوز اور دستاویزات کا تبادلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ٹیلی گرام ایم ٹی پیروٹو پروٹوکول پر انحصار کرنے کے باعث واٹس ایپ سے زیادہ محفوظ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

تازہ ترین واٹس ایپ صورتحال 

سال کا آغاز ہوتے ہی تازہ ترین واٹس ایپ صورتحال یہ ہے کہ بہت سے اسمارٹ فونز میں واٹس ایپ کام کرنا بند کرچکی ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین اور عوام الناس واٹس ایپ کا استعمال ترک کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ واٹس ایپ اکاؤنٹ ڈیلیٹ بھی ہوجائے تو اس کے بہت عرصے بعد بھی صآرفین کا ڈیٹا، معلومات اور ذاتی حرکات و سکنات کا ریکارڈ واٹس ایپ پر موجود رہتا ہے۔

تاہم یورپی یونین کے 27 ممالک واٹس ایپ کی نئی پرائیویسی پالیسی سے محفوظ ہیں۔ حال ہی میں یورپی ممالک جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) متعارف کروا کر تمام کمپنیوں کو صارفین کا ڈیٹا محفوظ بنانے پر مجبور کرچکے ہیں چاہے اس کمپنی کا تعلق دنیا کے کسی بھی ملک سے ہو جس میں واٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئٹر سمیت ہر سوشل میڈیا ایپ شامل ہے۔ شاید ایسا ہی کوئی قدم پاکستان کو بھی اٹھانے کی ضرورت ہے۔ 

Related Posts