کیا بھارتی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ میں کیا گیا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارتی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کا ہیش ٹیگ گزشتہ ایک ہفتے سے ٹوئٹر پر مسلسل ٹرینڈ کررہا ہے۔

سوشل میڈیا صارفین اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ 5 مئی کو ریلیز ہونے والی متنازع فلم کی ریلیز کی درخواست کو بھارتی سپریم کورٹ نے کیسے نظر انداز کر دیا کیونکہ سپریم کورٹ نے متنازع فلم کی ریلیز پر پابندی لگانے کے معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا ہے۔

سدیپٹو سین کی ہدایت کاری اور وپل امرت لال شاہ کی پروڈیوس کردہ فلم خواتین کی مذہب تبدیلی اور دہشتگرد تنظیم میں شمولیت کے موضوع پر مبنی ہے۔

کہانی

فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی ریاست کیرالہ سے 32 ہزار نوجوان اور کم عمر لڑکیاں غائب ہوکر داعش میں شمولیت اختیار کر چکی ہیں جو بھارت، شام اور لیبیا سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔

فلم کو خاص پروپیگنڈا کے تحت بنا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ مقامی علما ہی خواتین کو دین اسلام کی جانب راغب کرکے انہیں مسلمان بنا رہے ہیں۔فلم میں علما کو نوجوان مسلمانوں کو ہدایات دیتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے کہ کیرالہ کی نوجوان لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسائیں اور انہیں حاملہ کریں۔

تنازعہ

یہاں پر چند نکات مندرجہ ذیل ہیں جو فلم کے تنازعہ کی وضاحت کرتے ہیں:

بھارتی میڈیا کے مطابق فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیرالہ میں تقریباً 32 ہزار خواتین لاپتہ ہیں اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔

یہ خواتین اسلام قبول کرنے کے بعد بھارت، شام اور لیبیا سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔

ایک بھارتی چینل کے مطابق کیرالہ کے وزیر اعلیٰ نےفلم کو سنگھ پریوار یعنی ہندو نسل اور انتپا پسند تنظیموں اور جماعتوں کا تسلسل قرار دیا اور کہا کہ ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو پروپیگنڈا کے تحت بنایا گیا۔

بھارتی سیاست دان شاہی تھرور نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ فلم میں لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے والے کے لیے 1 کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ثبوت فراہم کرنے کے لیے مراکز 4 مئی کو ہر ضلع میں کھولے جائیں گے اور کوئی بھی ان مراکز میں تفصیلات جمع کرا سکتا ہے۔

کیا فلم میں کیا گیا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے؟

فلم کا دعویٰ ہے کہ وہ چار خواتین کی کہانی پر مبنی ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا اور 2016 اور 2018 کے درمیان داعش میں شامل ہونے کے لیے اپنے شوہروں کے ساتھ افغانستان کا سفر کیا اور وہ اس وقت ایک افغان جیل میں قید ہیں۔

اس حوالے سے 2019 میں‘Khorasan Files: The Journey of Indian Islamic State Widows’ کے عنوان سے ایک رپورٹ StratNewsGlobal کی ویب سائٹ پر شائع کی گئی تھی جس میں کیرالہ سے تعلق رکھنے والی چار خواتین نمیشہ عرف فاطمہ عیسیٰ، میرین عرف میریم، سونیا سیبسٹین عرف عائشہ اور رافیلہ کےانٹرویوز شائع کیے گئے تھے۔

Related Posts