اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دورہ پاکستان کے موقع پر سلامتی کونسل کے 5 مستقل اراکین کے پاس ویٹو پاور کو عدم مساوات کی بڑی وجہ تسلیم کرتے ہوئے اقوام عالم کے درمیان عدم تفاوت کا اقرار کیا ہے۔سلامتی کونسل کے یہ پانچ ویٹو پاور کے حامل ممالک اکثر اپنے مفادات سے متصادم کسی بھی قرار داد کو مسترد کرکے دیگر ممالک کی حق تلفی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔
دنیا میں امن قائم کرنا، کسی بھی خطے یاملک کوجبری طور غلام بنانے سے روکنا، جنگوں کے امکانات کو کم کرنا، تنازعات کا پر امن حل ، قوموں کو حقوق کی فراہمی اور امن وانصاف کی فضاء کو قائم رکھنا اقوام متحدہ کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں تاہم اقوام متحدہ بااثر ممالک کیخلاف کوئی بھی اہم اقدام اٹھانے اور دنیا میں مساوات قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15ارکان میں سے امریکا، فرانس، برطانیہ، چین اور روس 5مستقل ارکان ہیں۔ سلامتی کونسل کے دیگر دس ارکان دنیاکے مختلف ممالک سے دو سال کیلئے رکن بنتے ہیں۔ سلامتی کونسل میں کسی بھی بل یا قراردادکو پاس کرنے کیلئے کم سے کم 9ووٹ درکار ہوتے ہیں تاہم اگر کوئی مستقل رکن ویٹوپاور کا استعمال کرتے ہوئے مخالفت میں ووٹ دے تو یہ قرارداد یا بل اسمبلی میں پاس نہیں ہوسکتا۔
سلامتی کونسل میں اب تک تقریباً 250 سے زائد قرارداوں کو ویٹو پاور کے تحت مسترد کیا جاچکا ہے، سابق سوویت یونین موجودہ رشین فیڈریشن ویٹو پاور کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ارکان میں سر فہرست ہے ، روس اب تک 110 سے زیادہ بار ویٹو پاور استعمال کرچکا ہے۔ سپر پاور امریکانے بھی سو کے قریب قراردادوں کو مسترد کرکے ویٹو پاور کا بھرپوراستعمال کیا ہے۔برطانیہ کی جانب سے 30 سے زائد اور فرانس نے 16 بار ویٹو پاور کا استعمال کیا جبکہ پاکستان کا دیرینہ دوست چین مولانا مسعود اظہر سمیت چینی مفادات کیخلاف اب تک 13 بار ویٹو پاور کے تحت اپنے اور پاکستان کے مفادات کیخلاف پیش ہونیوالی قرارداوں کو مسترد کرچکا ہے۔
سلامتی کونسل میں صرف پانچ ممالک کے پاس ویٹو پاور عدم مساوات کی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ مہذب دنیا کو اِن پانچ ممالک کا غلام بنا کر رکھ دیا گیا ہے ، یہ بااثر ممالک اپنی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں جس کہ وجہ سے کئی تصفیہ طلب تنازعات میں اقوام متحدہ اختیارات ہونے کے باوجود بے بس دکھائی دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل دیا گیا تھا لیکن اب حالات مکمل طورپر تبدیل ہو چکے ہیں ،اس لیئےاقوام متحدہ کے مختلف اداروں میں نئی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ۔