کراچی میں آوارہ کتوں کی بہتات کے ساتھ ہی سگ گزیدگی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے، متعدد شہری کتوں کے کاٹنے کے بعد اینٹی ریبیز ویکسین نہ ملنے کے سبب موت کا شکار ہو چکے ہیں۔شہر قائد میں کتوں کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماریوں کی روک تھام کے لیے ضرورت تو کتا مار مہم کو بھرپور طریقے سے چلانے کی تھی تاہم سندھ حکومت کی جانب سے کتوں کو اینٹی ریبیز ٹیکے لگانے کی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔
آوارہ کتوں کو اینٹی ریبیز ویکسی نیشن کی مہم سندھ حکومت اورمقامی این جی او کے تعاون سے ضلع وسطی میں جاری ہے، اس مہم کا مقصد شہریوں کو کتے کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچانا ہے۔سندھ حکومت کی مہم کے سلسلے میں آوارہ کتوں کو پکڑنے اور انہیں انجکشن لگانے کے لیے بلدیاتی عملے کو باقاعدہ ٹریننگ بھی دی جا رہی ہے۔
آوارہ کتوں کو پکڑ کر ٹیکہ لگانے کے لیے تربیت یافتہ افریقی ٹرینرز بلدیاتی کونسلز کے عملے کو تربیت دیں گے، آوارہ کتوں کے لیے ہر ضلع میں سینٹرز بنائے جائیں گے۔حکومت سندھ کی جانب سے آوارہ کتوں کو اینٹی ریبیز انجکشن لگانے کے منصوبے پر 30 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
یاد رہے کہ چند سال قبل جب بلدیاتی اداروں نے آوارہ کتوں کو تلف کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا تو ایک غیر سرکاری تنظیم نے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس تنطیم کا کہنا تھا کہ کتوں کو زہر دیکر مارنے کی بجائے اس کی نس بندی کی جائے، جس کے بعد کراچی میں انڈس اسپتال میں اس حوالے سے ایک منصوبے پر عملدر آمد جاری ہے۔
سندھ حکومت نے آوارہ کتوں کو زہر دے کر مارنا ممنوع قرار دیکرمنصوبے کے تحت 7 سال میں آوارہ کتوں کی نسل ختم کرنے کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے، اس حوالے سے سیکریٹری بلدیات روشن شیخ کاکہنا ہے کہ پہلے کتوں کو مارا جاتا تھا تاہم اب کتوں کو ٹیکے لگائے جا رہے ہیں جو کہ زیادہ بہتر اقدام ہے۔انہوں نے بتایا کہ مہم کے دوران کتوں کو ٹیکے لگائے جائیں گے تاکہ بیماریاں نہ پھیلیں، آہستہ آہستہ اس مہم کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا جس کے بعد یہ مہم پورے سندھ میں چلائی جائے گی۔
روشن شیخ نے یہ بھی بتایا کہ جاری مہم میں روزانہ 3 سے 4 ہزار کتوں کو ٹیکے لگائے جائیں گے اور جس کتے کو ویکیسن لگائی جائے گی اس کو ٹیگ بھی لگایا جائے گا۔
’جناح ہسپتال میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب ہے لیکن سندھ میں بالعموم اس کی قلت ہے۔ اس ویکسین کے ساتھ متاثرہ فرد کو ربیز امینوگبلن بھی لگنا چاہیے جو ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتا۔ اس صورت حال میں خدشہ یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو ربیز ہو جائے گی۔‘
ماہرین کے مطابق کتے کے لعاب میں ریبیز نامی خطرناک وائرس پایا جاتا ہے، کتے کے کاٹنے کی صورت میں یہ وائرس زخم کے ذریعے خون اور پھر دماغ میں پہنچ کر اسے شدید نقصان پہنچاتا ہے جس کے باعث مریض کو سردرد اور بخار کے علاوہ پانی پینے تک میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بالآخر تکلیف دہ موت یقینی ہوجاتی ہے۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اوراینٹی ریبیز ویکسین نہ ملنے کے باعث متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
سندھ کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال جے پی ایم سی میں رواں برس کتے کے کاٹنے کے تقریباً چھ ہزار کیسز آ چکے ہیں جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی۔ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق اسی طرح کیسز آتے رہے تو ان کے اسپتال میں بھی یہ ویکسین ختم ہو جائے گی۔