1843 میں برطانوی جنرل سر چارلس نیپئر نے سندھ پر حملہ کیا اور فتح کے بارے میں گورنر جنرل کو ایک ٹیلی گرام بھیجاجس میں انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ایک لفظ پیکاوی لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔
انگریزوں کوامید کی تھی کہ وہ اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے اور برطانوی مصنوعات کی منڈی کے طور پرسادہ مقصد کے ساتھ سندھ کو اپنی معاشی صلاحیت کے لئے استعمال کریں گے تاہم کچھ سال بعد سندھ کو بمبئی میں ضم کر نے کے بعد سے سندھ کو نظرانداز کرنے کے حوالے سے احساس محرومی پیدا ہوا۔
انگریزوں نے منافع بڑھانے اور سندھ کا استحصال کرنے کی کوشش میں سکھر بیراج جیسے آبپاشی کے انفراسٹرکچر سسٹم پر کام کیا جو 1932 میں مکمل ہوا۔ بالآخر بہت سے کسان پنجاب سے سندھ ہجرت کرگئے جس کے بعد سندھ کی انتظامی حیثیت اور بمبئی ایوان صدر سے علیحدگی کی خواہش نے جنم لیا۔
یہ مطالبہ سب سے پہلے ایک سندھی ہندو نے 1913 میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس کے دوران کیا تھا لیکن پارٹی ان مسلمانوں کے مفادات کی نمائندگی کرنے میں ناکام رہی جو بمبئی سے علیحدگی کا مطالبہ کررہے تھے لیکن اس مطالبے کو مسلم لیگ نے اپنے مطالبات میں شامل کیا اور پھر یہ جناح کے چودہ نکات کا حصہ بنا۔ اسی وجہ سے بہت سے مشہور سیاسی خاندانوں نے مسلم لیگ کی حمایت کرتے ہوئے تقسیم ہند پر اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔
پاکستان کی قرار داد منظور کرنے والا سندھ پہلا اور واحد صوبہ تھا،مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے آزادی کی حمایت کی اور علیحدہ وطن کے مطالبے کو بڑھانے کے باوجود سندھ نے مرکزیت پسندانہ پالیسیوں کا شکار ہونا ختم کیا جو ملک کی زیادہ تر سیاسی تاریخ میں غالب آچکی ہیں۔
آزادی کے بعد سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو جو ایک وڈیرے تھے ،انہوں نے کراچی کی سندھ سے علیحدگی کی مخالفت کی کیونکہ یہ وفاقی دارالحکومت تھا۔ بالآخر انہیں برطرف کردیا گیا لیکن پھر 1955 میں ’’ ون یونٹ ‘‘ اسکیم تشکیل دینے میں مدد ملی جس کے تحت طویل عرصے تک ایک بار پھر سندھ کے حقوق غصب کیے گئے۔
جب سے مہاجر جو سندھ میں آباد ہوئے تھے اور قوم پرست تحریکیں عروج پر تھیں اس وقت سے ہی سندھ نے مرکز کے ساتھ متفقہ تعلقات رکھے ہیں۔ بھٹو نے سندھ کی حیثیت بحال کردی لیکن کوٹہ سسٹم ، قوم پرستی اور تفرقہ بازی کی پالیسیاں متعارف کرائیں جس سے نسلی تفریق میں اضافہ ہوا۔
فوج کی جانب سے ایک بار پھر اقتدار سنبھالنے کے بعد سیاستدانوں کی الزام تراشیوں اور تنازعات کی وجہ سے سندھ کی الگ شناخت کا مسئلہ پس پشت چلا گیا، سندھ کے حقوق غصب ہوگئے ۔اس وقت سندھ میں وفاق میں حکمراں جماعت کی حکومت نہیں ہے اس لئے کراچی کے حوالے سے ایک ہنگامہ برپا ہے،یہ کراچی کے انتظامی کنٹرول کے بارے میں نہیں ہے بلکہ سندھ پر قبضہ کرنے کاایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔
یہ ایک تلخ تاریخ ہے اور ہمیں طاقت کے محور اور بنیادی معاشی و اقتصادی امور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انتہائی پیچیدہ اور کثیر النسل نسبت والے صوبے کو دبانے کی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں بہت حد تک تلخ نتیجہ برآمد ہوگا اور حکومت کو دوبارہ چارلیس نیپئر کا لفظ پیکاوی کہنا پڑ سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ میں نے گناہ کیا۔