آج پاکستانی قوم عیدالاضحیٰ کا مذہبی تہوار ملی جوش و جذبے سے منا رہی ہے۔ رواں برس عمومی طور پر ہی معاشی بحران اور ریکارڈ توڑ مہنگائی کے باعث عوام کی عید کی خوشیاں بھی ماند پڑ چکی ہیں۔
سب سے پہلی بار تو بے تحاشا مہنگائی کی کر لی جائے جو مئی میں ریکارڈ 38 فیصد کی شرح تک جا پہنچی جس کے باعث بے شمار افراد جو پہلے آسانی سے قربانی کر لیا کرتے تھے، اب اس مذہبی فریضے کی ادائیگی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔
ہزاروں افراد نے بڑے جانوروں کی جگہ چھوٹے خرید کر قربانی کرنے کی ٹھان لی ہے جبکہ یہ افسوسناک واقعہ بھی عین ممکن ہے کہ دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں سے آنے والے بیوپاری اپنے مال مویشی فروخت کیے بغیر ہی اپنے اپنے گاؤں واپس لوٹ جائیں۔
قبل ازیں سڑکیں بچوں سے بھری رہتی تھیں جو سارا دن قربانی کے جانوروں کے ساتھ گزارا کرتے تھے۔ متوسط طبقے کے بہت سے پاکستانی رواں برس قربانی نہیں کر سکیں گے کیونکہ عوام کی قوتِ خرید کم ہوچکی ہے۔ آمدنی کی سطح وہی اور مہنگائی حدِ اعتدال سے کب کی گزر چکی ہے۔
عوام کے پاس اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی پر توجہ دینے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ اس سال بہت سے پاکستانی حج کے اہم ترین مذہبی فریضے کی انجام دہی سے بھی قاصر رہے کیونکہ حج کیلئے درکار اخراجات ریکارڈ سطح تک جا پہنچے۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس حج پر آنے والے اخراجات کی سطح 40 فیصد زیادہ ہوگئی اور حکومت کو حج کوٹہ سعودی حکومت کو واپس دینا پڑا اور یہ فیصلہ بھی ڈالرز کی کمی کے باعث کیا گیا کیونکہ حج کے اخراجات کی ادائیگی ڈالرز میں کرنی پڑتی ہے۔
ملکی خزانہ تقریباً خالی ہوچکا ہے۔ حکومت نے جانوروں کی قربانی کی رقم تک واپس کردی کیونکہ حکومت قربانی کے انتظامات کرنے سے بھی قاصر رہی۔ قوم کو جس معاشی صورتحال کا سامنا ہے، اس کے نتیجے میں مذہبی تقریبات تک متاثر ہورہی ہیں۔
عید کی خریداری کیلئے عموماً بازاروں میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن ہوا کرتا تھا، تاہم آج کل گلیاں اور بازار سنسان نظر آتے ہیں۔ خریدوفروخت کے رجحان میں بڑی تیزی سے کمی آئی ہے کیونکہ خریدار بلند ترین اور تاریخی افراطِ زر کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اشیائے خوردونوش کی مہنگائی کا جائزہ لیا جائے تو وہ 47 فیصد سے زیادہ ہوچکی ہے۔ امیر طبقہ بھی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کیلئے اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلیاں لانے پر مجبور ہوچکا ہے، جس سے تمام صنعتیں متاثر ہوئی ہیں کیونکہ روپے کی قدر کم ہوچکی ہے اور فروخت میں کمی سے معیشت کی سست روی بڑھ گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے شرحِ سود 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچا چکا ہے۔ ترقی کی شرح 0.6 فیصد ہے جبکہ مستقبل قریب میں ملکی معیشت کیلئے آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کے اجراء کی امید کے سوا کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آتی۔
ضروری ہے کہ رواں برس قوم اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی مغفرت کی دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تمام تر معاشی و معاشرتی پریشانیوں کو کم کرنے کیلئے دعا کرے تاکہ رواں سال گئی ہوئی عید کی خوشیاں اور رونقیں آئندہ برس ہی لوٹ آئیں۔