سندھ میں 10 ہلاکتیں،قبائلی جھگڑے وجرگے مزید کتنی جانیں لیں گے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Nine deaths in Kashmore: Will the Tribal fighting come to end?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تم میرے بھائی کو مار ڈالو، میں تمہیں مار ڈالوں گا اگر تم نے مجھے ماردیا تو تم میرے بیٹے کے ہاتھوں مارے جاؤگے اور میرا بیٹاتمہارے بیٹے کے ہاتھوں مارا جائے گا، یہ سلسلہ برسوں نہیں بلکہ صدیوں چلتا رہے گا۔

یہ روایت ناصرف سندھ بلکہ بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے قبائل میں عام ہے جہاں روایتی دشمنیاں کئی نسلوں تک چلتی ہیں حتیٰ کہ خاندانوں کے خاندان مٹ جاتے ہیں لیکن دشمنی ختم نہیں ہوتی۔

ابھی حال ہی میں عید کے موقع پر سندھ کے ضلع کشمور کی تحصیل کندھ کوٹ میں قبائلی تصادم میں 10 انسانی جانوں کے ضیاع کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ قبائل کے درمیان قیمتی انسانی جانوں کی بھینٹ لینے کے بعد بھی خون کی پیاس ابھی ختم نہیں ہوئی اور مسلح قبائل بدلے کی آگ میں جل رہے ہیں اور پولیس ودیگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے صورتحال پر قابو پانے میں مکمل طور پر بے بس و ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

کندھ کوٹ واقعہ
پولیس کے مطابق کندھ کوٹ کچے کے علاقے درانی مہر میں سبزوئی، جاگیرانی اور چاچڑ برادری کے درمیان پرانا تنازعہ چل رہا ہےاورگزشتہ روزسبزوئی اورجاگیرانی قبائل نے چاچڑ برادری کے گاؤں زمان چاچڑ پر حملہ کیااورفائرنگ کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق ہوگئے، جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں ،اب تک کی اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کا تعلق چاچڑ برادری سے بتایا جاتا ہے تاہم سوشل میڈیا پر 12 اور 20 سے زائد ہلاکتوں کی بھی اطلاعات ہیں ۔واقعہ کے بعد پولیس کی بھاری نفری علاقے میں موجود ہے تاہم کشیدگی میں کمی نہیں آسکی اور دونوں جانب سے حملے کیلئے مناسب موقع تلاش کیا جارہا ہے۔

قبائلی جھگڑے اور جرگے
پاکستان کے طول و عرض میں دیہی علاقوں میں شائد اتنے لوگ نہیں ہونگے جتنے جھگڑے ہیں، سندھ، پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں قبائلی علاقوں میں لین دین، وصیت، طلاق، منگنی، قتل اور فتنہ و فساد کے مقدمات کا فیصلہ عدلیہ نہیں کرتی بلکہ پنچایت یا جرگہ کرتا ہے اور پاکستان میں ونی، کاروکاری جیسے جرائم بھی انہیں پنچایتوں اور جرگوں میں ہی فروغ پاتے ہیں جبکہ جرگہ کے حکم پر مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے جبکہ پاکستان کی تاریخ پنچایت اور جرگوں کے شرمناک فیصلوں اور انسانی تذلیل سے بھری پڑی ہے۔

سپریم کورٹ کا موقف
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جرگہ اور پنچایت کے نظام کو آئین اور پاکستان کی بین الاقوامی یقین دہانیوں کے خلاف قرار دیاجاچکا ہے،17 جنوری 2019 کو اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے تحریری فیصلے میں کہا تھاگیا کہ جرگہ اور پنچایت کے نظام انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (یو ڈی ایچ آر)، سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے تمام فورم پر خاتمے پر موجود کنونشن (سی ای ڈی اے ڈبلیو) کے تحت پاکستان کی بین الاقوامی وعدوں کے خلاف ہے۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ فیصلہ خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن (این سی ایس ڈبلیو) سمیت حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر دیا گیا۔اس کیس میں اٹھائے گئے مسئلے کی اصل حقیقت یہ تھی کہ آج کے دور میں قبائلی علاقوں خاص طور پر خیبرپختونخوا کے شمالی اور پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے کچھ دیہی علاقوں میں ’عمائدین کے کونسل‘ یا ’کینگرو کورٹس‘ کی شکل میں غیر رسمی لیکن متوازی قانونی نظام موجود ہے۔

اسلحہ کلچر
سندھ سمیت پورے ملک میں قبائی علاقوں میں وڈیرہ شاہی نظام قائم ہے جہاں پولیس بھی قبائلی زعماء کے سامنے بے بس ہوتی ہے اور بیشترواقعات میں پولیس خود بھی غیر قانونی جرگوں میں شریک ہوتی ہے، قبائلی علاقوں میں اگر پسماندہ علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو گھروں میں اناج بھلے نہ ہو لیکن اسلحہ لازمی موجود ہوگا۔ اس لئے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر اسلحہ ان علاقوں میں آتا کہاں سے اور کیسے ہے ۔

نام نہادوڈیرے لوگوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کیلئے اسلحہ کلچر کو پروان چڑھاتے ہیں اور اپنی دھاک برقرار رکھنے کیلئے قبائل کے درمیان دشمنیوں کو ہوا دیتے ہیں کیونکہ جہاں جتنا خون بہے گا وہاں اتنی ہی دہشت قائم ہوگی۔

مسئلے کا حل
اعلیٰ عدلیہ جرگوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے اور عدالتی احکامات کی بجاآوری پولیس کا کام ہے ، سب سے پہلے قبائل سے اسلحہ واپس لیا جائے کیونکہ قبائل میں چھوٹے چھوٹے بچے کتاب اور قلم کی بجائے اسلحہ تھامے دکھائی دیتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہات میدان جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں اور معمولی معمولی بات پر خونی تصادم شروع ہوجاتا ہے۔

کندھ کوٹ میں ہونیوالے واقعہ میں جتنی بھی جانیں گئیں وہ ریاست پر قرض ہیں اور اب ریاست اپنا فرض پورا کرے اور واقعہ کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچائے اور کشت و خون کے اس کھیل کو پروان چڑھانے والوں کو بھی عبرت کا نشان بنائے۔

Related Posts