جن مشکلات سے گزرا ہوں، نہیں چاہتا دوسرے باکسرز بھی انکا شکار ہوں، اولمپئین رشید بلوچ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جن مشکل راستوں پر چل کر بڑے مقام تک پہنچا ہوں، میں چاہتا ہوں نئے آنے والے باکسر ان مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ پاکستان میں باکسنگ کو فروغ دینے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان نژاد نیوزی لینڈ کے باکسر عبد الرشید بلوچ المعروف بلیک ممبا نے ایم ایم نیوز کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

عبد الرشید بلوچ گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں مقیم ہیں اور نیوزی لینڈ کی شہریت رکھتے ہیں، تاہم ان کی پیدائش پاکستان کی ہے اور ان کا پورا باکسنگ کیریئر بھی پاکستان میں ہی پروان چڑھا ہے۔ عبد الرشید بلوچ پاکستان باکسنگ ٹیم کے سابق کپتان، کوچ اور ٹرینر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پاکستان کے اولمپئین باکسر ہیں۔ ان کا باکسنگ کیریئر شاندار ریکارڈز سے بھرپور ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں ایک سو سولہ فائٹس لڑی ہیں، جن میں سے اٹھانوے میں وہ فتح یاب ہوئے ہیں، جبکہ پچاسی فائٹس انہوں نے ناک آؤٹ جیتی ہیں۔

ایم ایم نیوز نے گزشتہ دن عبد الرشید بلوچ عرف بلیک ممبا سے ویڈیو لنک پر انٹرویو لیا، جس کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔

ایم ایم نیوز: پاکستان میں اپنے باکسنگ کیرئیر کے تجربات کی روشنی میں بتائیے کہ پاکستان میں اس شعبے میں کیا چینجنگ آئی ہے اور کیا مشکلات ہیں؟

عبد الرشید بلوچ: تبدیلی تو اس شعبے میں اب تک کوئی خاطر خواہ نہیں آئی ہے، تاہم میری خواہش اور کوشش ہے کہ میں جن پتھریلے راستوں کی مشکلات کاٹ کر اس مقام تک پہنچا ہوں، نئے باکسرز کو ان مشکلات کا شکار نہ ہونا پڑے۔ پاکستان میں ستر کی دہائی میں باکسنگ شروع ہوئی، تب سے بڑے عرصے تک سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ پاکستانی باکسرز کو بیرون ملک اپنے کیرئیر اور قابلیت کے متعلق باکسنگ کی تنظیموں کو پروف کرنا پڑتا تھا کہ میں پروفیشنل باکسر ہوں۔ اب البتہ ہم یہ چینج لائے ہیں کہ ہمارے باکسرز کو ایسا نہیں کرنا پڑتا۔ ہماری تنظیم کے لائسنس سے باکسرز کو اب آسانی ہوگئی ہے، اب آسانی سے ہمارے لائسنس یافتہ باکسر باہر جا سکتے ہیں اور آسانی سے پروفیشنل مقابلوں میں شرکت کر سکتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: یہ بتائیے کہ آپ کا نک نیم یا رنگ نیم بلیک ممبا ہے، یہ کیسے پڑا اور آپ ینگسٹرز کو کیا پیغام دیں گے؟

عبد الرشید بلوچ: میں نے 1989 میں اپنے والد صاحب کے ساتھ میں حیدر آباد میں لوہار کا کام کرتا تھا، اس کام کے دوران میں ہتھوڑا بہت شوق سے چلاتا تھا، ہمارے پڑوس میں ایک میکنیک ہوتے تھے، محمد علی نام تھا، اس نے ایک دن مجھے بتایا کہ میری فائٹ ہے، دیکھنے جائیں گے میرے ساتھ؟ میں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا باکسنگ کی فائٹس پاکستان میں بھی ہوتی ہیں، وہ تو امریکا میں ہوتی ہیں؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایسی بات نہیں، پاکستان میں بھی ہوتی ہیں۔ میں اس کے ساتھ فائٹ دیکھنے گیا اور پھر وہ دن اور آج کا دن باکسنگ کا ہی ہو کر رہ گیا۔ سب سے پہلے میرے باکسنگ کے استاد اللہ بخش مرحوم تھے، انہوں نے حیدر آباد میں مجھے باکسنگ سکھائی، پھر ہم کوئٹہ شفٹ ہوگئے، وہاں استاد عطا محمد کاکڑ جو بابائے اسپورٹس کہلاتے ہیں، نے مجھ پر خوب محنت کی، وہاں کئی مقابلے کھیلے اور جیتے۔ انیس سو ترانوے میں ہم کراچی شفٹ ہوئے، یہاں استاد جان محمد بلوچ جو نیشنل کوچ تھے، ان کی سرپرستی حاصل ہوئی، یہاں سے میں نیشنل ٹیم میں سلیکٹ ہوا، پھر انڈونیشیا کے پہلے ٹور پر ٹیم کے ساتھ گیا اور اس طرح میرا پروفیشنل اور بین الاقوامی کیریئر چل پڑا۔ پھر جاپان گیا۔ جاپان سے آسٹریلیا گیا۔ آسٹریلیا میں کئی بڑے مقابلے کیے۔ سڈنی میں ایک مقابلے کے دوران میری ناک آؤٹ پرفارمنس دیکھ کر وہاں کے ایک بڑے پروموٹر اینجلو ہائڈر نے مجھے بلیک ممبا کا خطاب دیا، جو ایک خطرناک سانپ ہوتا ہے۔پھر میں نے پاکستان ٹیم اور آرمی میں کوچنگ کی۔ آخر کار میں نے سوچا کہ پاکستان میں رہ کر ناکافی سہولیات میں باکسنگ کیلئے کچھ نہیں کر سکتا، اس لیے مختلف ممالک میں تلاش کے بعد آخر کار نیوزی لینڈ آگیا اور یہاں بیٹھ کر میں پاکستان باکسنگ کیلئے بڑی خدمت انجام دے رہا ہوں۔

ایم ایم نیوز: پاکستان باکسنگ کو پروان چڑھانے میں کیا مشکلات حائل ہیں؟

عبد الرشید بلوچ: پاکستان میں پروفیشنل سطح پر سہولیات ناکافی ہیں، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کھلاڑیوں کو ٹرینر، اچھے کوچز، موٹیویٹرز اور سائیکالوجسٹس درکار ہیں، ہم سب ان چیزوں پر محنت کر رہے ہیں، اس کے علاوہ عوام کو بھی دوسرے کھیلوں کی طرح باکسنگ کو بھی پذیرائی دینے کی ضرورت ہے۔ میڈیا سے بھی ہمیں سخت گلہ ہے کہ باکسرز اور باکسنگ کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہمیں میڈیا سے صرف شناخت چاہیے، ہمارے باکسرز کو متعارف کرائیں، انہیں شناخت دیں، یہ بڑی خدمت ہوگی۔

Related Posts