صدارتی نظام کااسٹیج سج گیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے عوام پر ٹیکسوں کے ناقابل برداشت بوجھ، مہنگائی میں خوفناک اضافے ،عالمی مارکیٹ میں عدم رسائی اوردوست ممالک کی طرف سے پاکستان کے مسائل سے آنکھیں چرانے کی روش نے عجیب مایوس کن ماحول پیدا کر دیا ہے ۔

موجودہ حکومت کے اپوزیشن کش رویے اور یکطرفہ احتساب کی چال نے سیاسی بےچینی پیدا کر ڈالی ہے۔

عوام سابقہ حکومتوں کی کارکردگی سے تو مایوس تھے ہی مگر تبدیلی کے نام پر تحریک انصاف کی حکومت عوام دوست منشور کی پٹری سے اتر کرتمام تر توجہ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے اور الجھانے میں لگا رہی ہے اور عوام کے مسائل کم کرنے کی بجائے ان میں اضافے کا سبب بن گئی ہے۔

آج عالم یہ ہے کہ عوام ماضی کی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں اور موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی سے بھی مایوس ہو چکے ہیں ،عوام ایک کرب سے گزر رہے ہیں ۔پاکستان دشمن قوتیں ہمیں اندر سے بھی کھوکھلا کرنے کے لئے کسی محفوظ سوراخ کی تلاش میں ہیں لہٰذا ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ایک ایسا نظام حکومت ملک میں لایا جائے جو عوام اور معیشت پر بوجھ نا ہو اور کوئی بھی حکمران اپنے اقتدار کے لئے اداروں کے کندھے استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نا کر سکے ۔

معیشت کسی بیرونی امداد کی محتاج نا رہے اور ملکی وسائل سے عوام کو ریلیف فراہم کر سکے ،پاکستان کو اندرونی و بیرونی طور پر مستحکم دیکھنے اور ملک کو معاشی طور پر مضبوط دیکھنے والے محب وطن عوام دوست طبقات موجودہ در پیش مسائل کی دلدل کے خاتمے کے لئے سنجیدگی سے غور کرنے لگے ہیں ۔

اس سلسلے میں اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں کچھ عرصے سے نظام کی تبدیلی کی بازگشت میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور صدارتی نظام کی دھمک کو محسوس کیا جا رہا ہے ۔ارباب سیاست کی سیاسی بیٹھکوں میں صدارتی نظام زیر بحث ہے ۔

سیاسی پنڈت آنے والے دنوں میں پارلیمانی نظام کے لئے خطرے کو محسوس کر رہے ہیں جبکہ اسلام آباد کے کچھ حلقوں میں پارلیمانی نظام کی ناکامی کا دبے لفظوں میں اعتراف کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے۔

پارلیمانی نظام سے وابستہ تمام امیدوں کا یکے بعد دیگرے ٹوٹنے کی وجہ سے عوام کا مزاج تیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ عوام کے سامنے متبادل نظام کی غیر موجودگی نے جس خلاء کو جنم دیا تھا اسے صدارتی نظام کے نفاذ کی آواز نے پر کر دیا ہے ۔

ایسی صورتحال اور عوامی مایوسی میں ہم عوام پاکستان پارٹی کے چیئرمین طاہر عزیز خان سیاسی منظر نامے پر اسلامی صدارتی نظام کے علمبردار بن کر ابھرے ہیں، چند ماہ قبل ان کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کے بعد جونہی طاہر عزیز خان نے عوام کی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تو ملک کے طول ارض میں اسلامی صدارتی نظام کے حق میں مظاہرے اور ریلیوں کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ملک کا کوئی بھی شہر ایسا نا تھا جہاں  صدارتی نظام کے حق میں آواز بلند نا ہوئی ہو ان مظاہروں اور ریلیوں میں عوام کی غیر معمولی دلچسپی اور شدت تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے کہ عوام کا سیاسی رجحان صدارتی نظام کے حق میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے ۔

اسلام آباد کے حلقوں میں ہم عوام پاکستان پارٹی کے چیئرمین طاہر عزیز خان کے بڑھتے ہوہے قدموں پر تبصرے اور تجزیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔سیاسی پنڈتوں اور طاہر عزیز خان کے درمیان دنگل سج چکا ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ کون پہلوان اکھاڑے میں گرتا ہے ۔

اسلام آباد کے سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ طاہر عزیز خان اسٹیبلشمنٹ کے کھلاڑی ہیں اور ان کی پشت پر خاکی وردی ہے جبکہ طاہر عزیز خان کی شخصیت سے واقف کاروں کا موقف ہے کہ طاہر عزیز خان ملک ملک میں موجود صنعتکاروں اور تاجروں کے اس گروپ کی نمائندگی کر رہے ہیں جس گروپ نے عمران خان سے مایوس ہو کر اور معاشی طور پر معیشت کی تباہ کاری کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک کی معیشت اور استحکام کے لئے صنعتکاروں اور تاجروں کو بھی اترنا پڑے گا ۔

ہم عوام پاکستان پارٹی کے چیئرمین طاہر عزیز خان نے جو آئینی پٹیشن دائر کی ہے اس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 1973 ملک میں جاری پارلیمانی سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے ،ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی کے قیام کا مقصد پارلیمانی نظام کا خاتمہ اور اس کی جگہ اسلامی صدارتی طرز حکومت قائم کرنا ہے تاکہ عوام اور مملکت پاکستان خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

طاہر عزیز خان نے اپنی پٹیشن میں فیڈریشن آف پاکستان وزیر اعظم عمران خان چاروں صوبائی حکومتوں کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 1973 کے آئین میں قرار داد مقاصد بھی صدارتی نظام کے قیام کی بات کرتی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا ذکر ہے، پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکا جیسی سپر پاور کے علاوہ ترکی اور ایران جیسے کامیاب مسلم ممالک میں صدارتی نظام رائج ہے لہٰذا پاکستان میں بھی اسلامی صدارتی نظام کا نفاذ کیا جائے ۔

پٹیشن میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ وزیر اعظم کو آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت ملک میں ریفرنڈم کے احکامات جاری کئے جائیں ۔ سپریم کورٹ میں معروف قانون دان احمد رضا قصوری کے علاوہ حفیظ الرحمان اور عبدالباسط نامی شہری نے بھی اسی قسم کی پٹیشن داخل کر دی ہے ۔شہریوں کی جانب سے پٹیشنز دائر ہونے کا سلسلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی حلقوں میں صدارتی نظام کے لئے تائید و رجحان موجود ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ نظام کی مجوزہ تبدیلی حقیقت حال میں ڈھلنے کے لئے کتنا وقت لیتی ہے۔

Related Posts