منی لانڈرنگ کیس میں شہباز اور حمزہ پر 18 فروری کو فرد جرم عائد کی جائے گی

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
منی لانڈرنگ کیس میں شہباز اور حمزہ پر 18 فروری کو فرد جرم عائد کی جائے گی
منی لانڈرنگ کیس میں شہباز اور حمزہ پر 18 فروری کو فرد جرم عائد کی جائے گی

لاہور: لاہور کی خصوصی عدالت نے جمعرات کو پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے صدر شہباز شریف کے بیٹوں حمزہ اور سلیمان اور دیگر پر 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 18 فروری کی تاریخ مقرر کی۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کے خلاف انسدادِ بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 419، 420، 468، 471، 34 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

ایف آئی آر میں چودہ دیگر افراد کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ خصوصی عدالت نے 27 جنوری کو اس مقدمے میں شہباز اور حمزہ کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔

آج سماعت کے دوران ایف آئی اے نے عدالت سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کرنے کی استدعا کی۔ عدالت نے تفتیشی ادارے کو ملزمان کو چالان کی نقول فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

اس کے بعد، عدالت نے مختصر حکم جاری کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے لیے 18 فروری کی تاریخ مقرر کی۔

ایف آئی اے نے دسمبر 2021 میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور حمزہ کے خلاف شوگر اسکینڈل کیس میں 16 ارب روپے کی لانڈرنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر خصوصی عدالت میں چالان جمع کرایا تھا۔

تحقیقاتی ٹیم نے شہباز خاندان کے 28 بے نامی اکاؤنٹس کا پتہ لگایا ہے جن کے ذریعے 2008-18 کے دوران 16.3 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ عدالت میں جمع کرائی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق، ایف آئی اے نے 17,000 کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کی جانچ کی۔

مزید پڑھیں: وزارتوں کی اچھی کارکردگی میں مراد سعید کا پہلا نمبر،وزیراعظم نے تعریفی سند دیدی

اس رقم کا شہباز خاندان کے شوگر کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ ایف آئی اے نے الزام لگایا تھا کہ شہباز کی جانب سے کم اجرت والے ملازمین کے اکاؤنٹس سے موصول ہونے والی رقم ہنڈی/حوالہ نیٹ ورکس کے ذریعے پاکستان سے باہر منتقل کی گئی تھی، جو بالآخر ان کے خاندان کے افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی۔