برطانیہ میں مقیم ہمارے مہربان دوست صاحبزادہ ضیاء ناصر کی والدہ محترمہ حال ہی میں انتقال فرما گئیں۔ انہوں نے اطلاع دیتے ہوئے فرمایا، “ہمارا دعاؤں کا دروازہ بند ہوگیا۔ میری امی جان اللہ کی رحمت میں پہنچ گئیں۔ انا للہ و نا الیہ راجعون۔
ان کا یہ پیغام فقط سانحہ ارتحال کی اطلاع نہیں بلکہ اس محرومی کی جانب اشارہ بھی ہے جس کا انہیں اب آگے کی زندگی میں امکان نظر آرہا ہے۔ کسی بھی شخص کے ساتھ اس دنیا میں اس سے بڑا سانحہ کوئی نہیں ہوسکتا کہ ماں گزر جائے۔ یہ فقط رشتوں کی قطار میں کھڑا ایک رشتہ کہاں ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس کے رویے اور سلوک میں خدائی سلوک کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ ہمارے قارائین میں اور بھی بہت سے احباب ایسے ہوں گے جو مختلف ادوار میں اس سانحے سے گزر چکے ہوں گے اور بعید نہیں کہ ان کا احساس بھی عین وہی ہو جو ضیاء ناصر کا ہے۔
سو ضیاء بھائی سے تو انفرادی طور پر بھی مواصلاتی ذرائع سے بات ہوسکتی تھی مگر خیال آیا کہ کیوں نہ کالم کی صورت اس پیغام کا دائرہ ان جملہ احباب تک بھی پھیلا دیا جائے جو ماں سے بچھڑنے کا سانحہ بھگت چکے ہیں اور جنہیں لگتا ہے کہ ان کی دعاؤں کا دروازہ بند ہوچکا۔ یہاں سے آگے میرے براہ راست مخاطب ضیاء بھائی ہی ہیں مگر یہ تسلی کے جملے سب کے لئے ہیں۔
نہیں ضیاء بھائی ! ان کی دعاؤں کا دروازہ بند نہیں ہوا بلکہ ان کی دعاؤں کے مجسم ہونے کا وقت آپہنچا۔ عورت وہ ہستی ہے جس کی توجہ کا مرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔ اسے خالق نے تخلیق ہی ایسا کیا ہے۔ چونکہ اس پر خالق نے کوئی “ذمہ داری” نہیں رکھی سو یہ اس کا قدرتی نتیجہ ہے کہ اس کی توجہ اپنی ذات پر ہوتی ہے۔ لیکن جوں ہی یہ صاحب اولاد ہوتی ہے اس کی 90 فیصد توجہ اولاد کی جانب مبذول ہوجاتی ہے۔ اور اس کے باوجود ہوجاتی ہے کہ اولاد کی ذمہ داری باپ پر ہی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مطلقہ اپنے بچے کے باپ سے بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ طلب کرے تو شرعا یہ اس مطالبے کا حق رکھتی ہے اور بچے کے باپ کو معاوضہ دینا پڑے گا۔ مگر اس کے باوجود کہ وہ ذمہ داریوں سے آزاد ہے اور اس کے باوجود اس کی فطرت اپنی ذات پر فوکس رہنے کی ہے ، ماں بنتے ہی اس کی 90 فیصد توجہ کا مرکز اس کی اولاد بن جاتی ہے۔ کبھی غور کیجئے گا میاں بیوی کے مابین تلخ کلامی کا آغاز اکثر کیسز میں ان کے صاحب اولاد بننے کے بعد ہوتا ہے۔ یہ ماں ہوتی ہے جو بچے کے لئے طرح طرح کی فرمائشیں کرتی ہے اور باپ کے لئے جب انہیں پورا کرنا ممکن نہ ہو نوبت تلخی کی آجاتی ہے۔ اور یہی اولاد جب بڑی ہوکر اپنی ذمہ داریاں خود سنبھال لیتی ہے تو والدین آپسی تلخ کلامیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔
ماں اولاد کی پرورش بھی کرتی ہے اور ہر لمحہ ان کے لئے حالت دعاء میں بھی رہتی ہے۔ اولاد کے لئے اس کی دعائیں ہوتی بھی بہت مفصل ہیں۔ باپ تو بس نیک، صالح اور کامیاب ہونے کی دعاء دیتا ہے جبکہ ماں اس کی ایک ایک ضرورت کا نام لے کر اللہ سبحانہ و تعالی سے مانگتی ہے۔ باپ ناراض ہوتا ہے تو دعائیں بند کر دیتا ہے۔ مگر ماں ناراضگی میں بھی جی ہی جی میں دعائیں دیتی رہتی ہے۔ باپ کو منانا مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر ماں کی تو بس گود میں سر رکھ دو اس کا دست شفقت فوراََ اولاد کے سر پر آجاتا ہے۔ اس کے قدموں تلے ویسے ہی جنت نہیں رکھدی گئی۔ یہ ہستی خدائی جھلک رکھتی ہے۔ جس طرح خدا اپنے نافرمان بندے کا سر اپنے سامنے جھکتے ہی اسے معاف کر دیتا ہے بعینہ ماں کا بھی معاملہ ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے
” حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺکے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی ۔ ہم سے حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں، جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔”
اس روایت کا خاص پہلو یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کی محبت بیان کرنے کے لئے ماں کی محبت کا پیمانہ استعمال فرمایا ہے۔ گویا اللہ کی محبت کے بعد مخلوق میں اگر کسی کی محبت شدت کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آتی ہے تو وہ ماں ہی ہے۔ اولاد کا معاملہ اس لحاظ سے بہت عجیب ہے کہ جب تک ماں زندہ ہے یہ نخرے کرتی رہتی ہے۔ مگر جوں ہی وہ دنیا سے اٹھ جاتی ہے، اولاد کا پہلا خوف یہی ہوتا ہے کہ اب وہ بے آسرا ہے، غیر محفوظ ہے۔ یوں اس کی بچت کا سارا دار و مدار اس بات پر ہوجاتا ہے کہ اپنے اعمال ٹھیک رکھے ورنہ اب مشکل میں اسے اپنی دعاؤں کی مدد سے بچانے والی ہستی نہ رہی۔ جب یہ اپنے اعمال ٹھیک کرنے لگتا ہے تو یہ اس کی ماں کی دعائیں ہی مجسم ہونے کا لمحہ ہوتا ہے۔ بعد از مرگ ماں کی محبت کو ویکٹویٹ رکھنے کی ایک ہی صورت ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کے لئے روزانہ کی بنیاد پر دعائیں مانگی جائیں اور اسے بھلایا نہ جائے۔ اولاد کی ماں کو دی جانے والی یہ دعائیں مرحومہ ماں کی دعاؤں کو تر و تازہ رکھتی ہیں۔
ضیاء بھائی ! آپ کی والدہ مرحومہ نے جو دعائیں مانگنی تھیں مانگ چکیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہوئی ہیں مگر دعائیں وہ یہیں آپ کے آنگن میں چھوڑ گئی ہیں۔ آپ نے خدا نخواستہ انہیں صرف رسمی طور پر یاد رکھا تو یہ دعائیں مرجھا کر اپنی تاثیر ختم کردیں گی۔ سو اب انہیں مجسم کرنے اور تر و تازہ رکھنے کی ذمہ داری آپ پر آگئی ہے۔ اٹھایئے ہاتھ اور قدم اور لگ جایئے کام سے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔ درجات بلند فرمائے اور ان سے راضی ہوجائے۔ آمین یا رب العالمین