وزیر اعظم عمران خان کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کہنا ہے کہ ہمارے بیرونی دشمنوں اور اندرونی مافیاز کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ان کا کہنا تھا کہ ‘مافیا ملک کو غیر مستحکم کرکے اپنے لوٹ کے مال کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں۔
یاد رہے کہ حکومت نے رواں سال 19 اگست کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی تھی جبکہ 28نومبربروز جمعرات آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ آئندہ 6 ماہ کے چیف آف آرمی اسٹاف رہیں گے جبکہ اس عرصے کے دوران پارلیمنٹ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یادوبارہ تعیناتی کے لیے قانون سازی کرے گی۔
واضح رہے کہ فوج فوج کی قیادت اب تک 16جرنیل سر انجام دے چکے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو29 نومبر2016 کو جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاک فوج کا 16 واں سربراہ بنایا گیاتھا۔
جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز تھے جن میں دہشت گردی کا خاتمہ سر فہرست تھا جس پرجنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ٹیم کے ساتھ ملکر انتہائی خوش اسلوبی سے قابو پالیا ۔
تاہم حکومت نے ملک میں سیاسی ومعاشی حالات ، کشمیر کا مسئلہ اور سی پیک کے حوالے سے جاری کشیدگی اور دیگر مسائل کو دیکھتے ہوئے اعلیٰ عسکری قیادت میں تبدیلی نہ کرنے کا جو فیصلہ کیا وہ وہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ناگزیر تھا ۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ آرمی چیف مدت ملازمت توسیع نہیں لینا چاہتے تھے تاہم وزيراعظم نے موجودہ صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی۔
سیاسی پنڈتوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ معطل کئے جانے کے بعد یہ امید لگالی تھی کہ شائد دو طاقتور اداروں کے درمیان تصادم ہونے جارہاہے اور ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی باتیں شروع ہوگئی تھی۔
سپریم کورٹ اور حکومت یا فوج کے درمیان کو تنازعہ نہیںتھا ، حکومت کے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے نوٹیفکیشن میں قانونی سقم تھی جس کی اعلیٰ عدلیہ نے نشاندہی کی اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی اجازت دیکر حکومت کو قانون سازی کی ہدایت دیکر معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹادیا ہے۔
پاکستان میں کوئی بھی غیر معمولی بات ہو سیاسی پنڈت جمہوریت کے خاتمے کی نوید سنادیتے ہیں ۔ اس غیر سنجیدہ رویئے کی وجہ سے ہمیشہ پاکستان کو نقصان ہوا ہے، اداروں میں تصادم کا تاثر پھیلنے کی وجہ سے گزشتہ روز اسٹاک مارکیٹ میں بھی ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی جس سے سرمایہ کاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
عدالتی فیصلے نے پاکستان میں جمہوری نظام کے خاتمے کے خواہشمندوں کے ارمانوں پر اوس ڈال دی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر معمولی یا غیر معمولی واقعہ کو اداروں کے تصادم میں بدلنے کے بجائے اپنے کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اس کے مثبت ومنفی پہلوئوں کا بغور جائزہ لے لیا جائے اور قانونی تقاضوں کو پورا کیا جائے تو ملک میں کبھی سیاسی یا آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی راہ ہموار ہوگی۔